پاکستان کے اٹامک انرجی کمیشن کے چیئر مین انصار پرویز کو گزشتہ ہفتے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کی گورننگ باڈی کا چیئر مین نامزد کیا گیا ہے ۔ لیکن واشنگٹن میں کچھ مبصرین یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا پاکستان ایک ایسے ملک کی حیثیت سے جس نے ابھی تک ایٹمی عدم پھیلاو کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے، ایران کے ایٹمی عزائم روکنے میں امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی تشویش کا ساتھ دے سکتا ہے ؟ جبکہ حال ہی میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ایرانی صدر احمدی نژاد نے ایک بار پھر اپنے ملک کے ایٹمی عزائم کا اعادہ کیاتھا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ واشنگٹن میں ان دنوں اس موضوع پر کیا گفتگو ہو رہی ہے ۔
اپنے تحفظ کے لئے ہتھیار بنانا اور کسی دشمن کو میلی آنکھ سے اپنی طرف دیکھنے نہ دینا، یقینا دنیا کے اول اول ہتھیار اسی نیت سے بنے ہونگے ۔ سائنس کی ترقی نے صنعتی انقلاب سے الجھتی عالمی طاقتوں کو سادہ ہتھیاروں سے آگے بڑھ کر دشمن کے دل پر حملہ کرنے کے طریقے سکھائے اور یوں وجود میں آیا دنیا کا پہلا نیوکلیئر کلب ، جس کے پانچ رکن ملکوں امریکہ ، برطانیہ ،سوویت یونین ، فرانس اور چین نے مل کر1968ءمیں این پی ٹی یعنی نیوکلیئر نان پرولفریشن ٹریٹی کے نام سے نیا معاہدہ کیا ۔ جس کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاو روکنا تھا،مگریہ مقصد پورا نہیں ہو سکا۔
بعد کے سالوں میں بھارت اور پاکستان نے ایٹمی تجربات کئے ۔ اسرائیل نے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا کبھی اقرار یا انکار نہیں
کیا مگر واشنگٹن میں کسی کو اسرائیل کے پاس ایسے ہتھیاروں کی موجودگی کے بارے میں شک نہیں ہیں ۔
ترکی سمیت یورپ کے کئی ملکوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف اپنے مشترکہ دفاع کا معاہدہ ہے ۔سوویت یونین سے الگ ہو جانے والی تین ریاستوں یوکرین ، بیلاروس اور قازقستان کو بھی سوویت یونین سے ہزاروں ایٹمی ہتھیار ورثے میں ملے تھے، مگر آزادی ملنے کے بعد کئی ایک نے اپنی ایٹمی ہتھیار تلف کر دیئے اور ایٹمی عدم پھیلاو کے اس عالمی معاہدے پر دستخط کر دیئے ۔ اس تنظیم کے رکن ملکوں کی تعداد اب 185 ہے۔ تاہم ان میں پاکستان اور بھارت شامل نہیں۔ جبکہ شمالی کوریا اس معاہدے پر دستخط کر کے 2003ء میں اس سے الگ ہو گیا تھا۔
2005ءمیں میدان میں آیا ایران ۔۔ مشرق وسطی ملکوں میں ایک قائدانہ کردار کا متلاشی ۔۔۔عوام کی قوت خرید کے لحاظ سے دنیاکی سولہویں بڑی معیشت ، تیل کی دولت سے مالا مال اور نواسی فیصد تعلیم یافتہ آبادی کا حا مل ۔ ایران اپنے ایٹمی عزائم کو نیک نیتی پر مبنی قرار دیتا ہے مگرانیس سو اناسی کے اسلامی انقلاب کے بعد مغربی دنیا ایران پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔۔
واشنگٹن میں ایران پر بھروسہ نہ کرنے کی ایک سے زیادہ توجیحات موجود ہیں ۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے میتھیو کروئنگ کہتے ہیں کہ ایران میں انقلاب کی تاریخ سب کے سامنے ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایران میں کچھ زیادہ جمہوری نوعیت کی حکومت اقتدار میں آئے گی ۔ مگر اگلے دس بیس یا تیس سال میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایران جس میں اگر کسی وجہ سے جمہوری حکومت ناکام ہو جائے تو دہشت گرد ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتے ہیں۔
میتھیو کروئنگ واشنگٹن کی جارج ٹاون یونیورسٹی میں گورنمنٹ کا مضمون پڑھاتے ہیں ۔ ایٹمی مواد کے غیر قانونی کاروبار پر کتاب لکھ چکے ہیں مگر ہمارے کسی بھی سوال کے جواب میں ایران سے پہلے پاکستان کا نام لیتے ہیں ۔ گو کہ ان کا کہنا ہے کہ ایک ملک کے دوسرے ملک کو ایٹمی مواد کی فراہمی میں مدد دینے کا انحصار علاقائی مفادات یا سٹریٹیجک صورت حال پر ہوتا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تیاری میں چین کا کردار ایسی ہی علاقائی ضرورت کے پیش نظر تھا ۔مگر کیا پاکستان بھی کسی دوسرے ملک کے ایٹمی پروگرام کی تیاری میں ویسی مدد فراہم کر سکتا ہے ؟
میتھیو کروئنگ کا کہنا ہے کہ سٹریٹیجک سچویشنز جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے ، وہ بعض ملکوں کو دوسرے ملکوں کو ایسا مواد حاصل کرنے میں مدد کر سکتی ہیں ۔ پاکستان ایسا ملک ہے جو دوسرے ملکوں کو ایٹمی مواد حاصل کرنے میں مدد کر سکتا ہے ۔ لیکن ان کے خیال میں کسی ملک کی مدد کرنا اور کسی غیر ریاستی عنصر کی مدد کرنا دو مختلف چیزیں ہیں ۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں 1945ء سے اب تک کسی ملک نے کسی دہشت گرد تنظیم یا غیر ریاستی گروپ کو ایٹمی مواد حاصل کرنے میں مدد نہیں کی ہے ، کیونکہ وہ گروپ خود ان کے خلاف بھی وہ ہتھیار استعمال کر سکتا ہے ۔ کسی اور کے خلاف وہ ہتھیار استعمال کر سکتا ہے ۔ یا اپنے سپلائر کے خلاف بھی انتقامی کارروائی کر سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت کوئی ملک کسی دہشت گرد گروپ کو ایٹمی مواد حاصل کرنے میں مدد نہیں کرے گا ۔
میتھیو کروئنگ کا خیال ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان نیٹ ورک کو ختم کرکے ایٹمی مواد اور معلومات کی سمگلنگ کو مکمل طور پر ختم دیا گیا ہے مگر واشنگٹن میں سب ان کے خیال سے متفق نہیں ۔
کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن پارٹی کے کانگریس مین ایڈ رائس کہتے ہیں کہ کئی سال پہلے میں نے رنگ مگنیٹس کا معاملہ اٹھایا تھا جو چین پاکستان کوایٹمی ہتھیار بنانے کے لئے منتقل کر رہا تھا ۔ ظاہر ہے ہم جانتے ہیں کہ انہیں حاصل کرنے سے پاکستان کا مقصد یہی تھا ۔ یہ چین کی غیر ذمہ داری تھی ، جس نے پاکستان کی ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت میں اضافہ کیا ۔ کیونکہ اس نے ڈاکٹر اے کیو خان کی ایٹمی پھیلاو کی صلاحیت بھی بے حد بڑھا دی تھی ۔
اور صرف یہی نہیں ، واشنگٹن میں ایٹمی عدم پھیلاو کے موضوع پر ہونےو الی تمام تر گفتگو اے کیو خان سے پہلے اور اے کیو خان کے بعد کے دورکے حوالے سے ہو رہی ہے ۔
دو ہزار چار میں پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے ایسو سی ایٹڈ پریس کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب ہر شخص قانون توڑ رہا ہے ۔ بھارت نے کیسےایٹمی صلاحیت حاصل کی ۔ اسرائیل نے کیسے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ۔۔تو پاکستان نے بھی ایسا ہی کیا ۔ اور کوئی بھی ملک جو اپنے پڑوسی ملک کی ایٹمی صلاحیت سے خطرہ محسوس کرے گا ، اسے ایسا کرنے کا حق ہے ۔ بھارت پاکستان کے دفاع کے لئے خطرہ تھا تو پاکستان نے یہ صلاحیت حاصل کی ۔ اسرائیل پڑوسی ملکوں کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے تو انہیں حق ہے کہ وہ ایٹمی صلاحیت حاصل کریں ۔ بین الاقوامی قانون کا کیا مطلب ہے ، جب وہ اسرائیل یا بھارت کو ایٹمی طاقت بننے سے نہیں روک سکے ،مگر ان کی طرف کوئی انگلیاں نہیں اٹھ رہیں ۔
واشنگٹن میں بعض ماہرین کو یقین ہے کہ دو ہزار چار میں سامنے آنے والے ایٹمی مواد کی غیر قانونی فروخت کے معاملے میں حکومت پاکستان ملوث نہیں تھی ۔
ماہر طبیعات ڈیوڈ آلبرائٹ واشنگٹن کے انسٹی ٹیوٹ برائے سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی کے صدر ہیں ۔ یہ پیڈلنگ پیرل ۔ ہاؤ د اسیکرٹ نیوکلئیر ٹریڈ آرمز امیرکاز اینیمیز نام کی کتاب لکھ کر واشنگٹن میں عالمی امور کے طلباء کو ایٹمی مواد کی فروخت روکنے کے طریقوں سے آگاہ کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے کیو خان نیٹ ورک کے کام میں پاکستانی حکومت شامل نہیں تھی ۔ نہ ہی اس نے اے کیو خان سے یہ کہا تھا کہ آپ شمالی کوریا ، ایران اور لیبیا کو ایٹمی مواد بیچیں ۔ یہ اس سے کہیں پیچیدہ معاملہ تھا ۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے مختلف کیسز کا جائزہ لیا اور سب کو میرٹ پر پرکھا ۔ مثال کے طور پر لیبیا کے کیس میں ہمیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پاکستانی حکومت نے اس کی منظوری دی تھی کہ وہ سب سامان سینٹری فیوجز اور نیوکلئیر ہتھیاروں کے ڈیزائنز لیبیائی حکومت کو بیچے جائیں ۔ یہ ایک نیٹ ورک تھا کوئی فرشتوں کی تنظیم نہیں ۔ ڈاکٹر اے کیو خان اس کے سربراہ تھے اور باقی اس کے اہم کردار تھے ، جن میں سے ایک دوبئی اورایک ملائشیا میں تھا
پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق پائے جانے والے امریکی تحفظات کے حوالے سے پاکستانی ماہرین کی رائے بھی ایک جیسی نہیں ۔
اس سال اپریل میں واشنگٹن میں ہونے والی نیوکلئیر سیکیورٹی سمٹ کے موقعے پر امریکہ کے دورے پر آنے والے دفاعی تجزیہ کار نعیم سالک نے اردو وی اے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ القاعدہ فرار کے رستے پر ہے ۔ اور دوسرے پاکستان کے نیوکلئیر ہتھیاروں کو خواہ مخواہ درمیان میں گھسیٹا جاتا ہے ، ان دونوں چیزوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے ۔
جبکہ قائد اعظم یونیورسٹی کے پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ خوف تو لوگوں کے دلوں میں ہے ، امریکہ میں بھی ہے باہر بھی ہے ۔ سچی بات کہی جائے تو پاکستان میں بھی ہے ۔ آخر وہاں القاعدہ اور دوسرے دہشت گرد تو ہیں ۔
تاہم بعض امریکی ماہرین کہتے ہیں کہ ایٹمی مواد کا پھیلا و روکنے کے لئے پابندیاں صرف پاکستان پر نہیں بھارت پر بھی لگنی چاہئے ۔ تو کیا بھارت بھی ایٹمی مواد کی غیر قانونی خریدو فروخت میں ملوث رہا ہے ؟
ڈیوڈ البرائٹ کہتے ہیں کہ اگرچہ ہمارے وسائل پاکستان کی جانب سے ایسی کسی کوشش کو بے نقاب کرنے پر زیادہ مرکوز رہے ، مگر ہمیں ایسی کئی چیزیں پتا چلیں جو بھارت کر رہا تھا ۔ بھارت نے یورینکو بیسڈ سینٹری فیوج ڈیزائن حاصل کیا ۔ ہم نہیں جانتے وہ کہاں سے حاصل کیا گیا ۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ انہیں پاکستان سے تو نہیں ملا ۔ جیسے کہ کچھ لوگوں نے دعوی کرنے کی کوشش کی ۔ مگر یہ یورینکو بیسڈ سینٹری فیوج ڈیزائن تھا جس کے لئے وہ ایک ہی سپلائر کے پاس گئے جو پاکستان کو بھی آلات فراہم کررہا تھا ۔ انہوں نے کچھ بالکل وہی چیزیں خریدیں جو پاکستان نے خریدی تھیں ۔ اور یہ نیٹ ورکس کتنے جنونی ہیں اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ جنہوں نے بھارت کو جو آلات سپلائی کئے ، پاکستان کو بھی وہی سپلائی کئے تھے ۔ خان نیٹ ورک کے جنوبی افریقی ساتھی پاکستان کو ان کے سینٹری فیوج پروگرام کے لئے آلات فراہم کر رہے تھے اور وہی بھارت کو بھی آلات فراہم کر رہے تھے ۔ انہوں نے بھارت کا دورہ بھی کیا اور یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ ان کے سینٹری فیوج پروگرام میں مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ کاروباری لوگ تھے جو اپنا سودا فروخت کر رہے تھے ۔
ڈیوڈالبرائٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ایٹمی مواد سے متعلق حساس معلومات کی حفاظت کا کام اے کیو خان نیٹ ورک کے سامنے آنے کے بعدیعنی خاصی تاخیر سے شروع کیا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان اپنی سیکیورٹی کو سخت کرنے کا کام جاری رکھے ۔ اسے اندر کے بھیدی کی فکر کرنی چاہئے ۔ یہ سب سےزیادہ مشکل مسئلہ ہے ۔ پاکستانی اداروں نے اس بارے میں کافی دیر سے فکر کرنی شروع کی ۔ یہ 2010ء ہے ۔ مجھے یہ بات دوبارہ کہنے دیں کہ انہوں نے اس بارے میں 2001ءسے پہلے فکر مند ہونا شروع نہیں کیا تھا ۔
مگر ڈیوڈ البرائٹ کہتے ہیں کہ آج کی ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی سے لیس دنیا میں حساس معلومات کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی کو روکنا اب صرف پاکستان یا کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ ان تمام ملکوں اور اداروں کا مسئلہ ہے جن کا واسطہ حساس معلومات سے پڑتا ہے ۔ اور ان میں امریکہ بھی شامل ہے ۔