رسائی کے لنکس

عبوری حکومت کے دوران نیب کو غیر موثر کرنے کا آرڈی ننس لایا جائے، نواز شریف


سابق وزیر اعظم احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
سابق وزیر اعظم احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ وہ ہفتہ کے روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کریں گے اور انہیں ایک آرڈیننس لانے کی تجویز دیں گے تاکہ نگران حکومت کے قیام سے لے کر آئندہ حکومت کے وجود میں آنے تک قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون کو غیر موثر قرار دیا جا سکے۔

نوازشریف کا کہنا تھا کہ مجھے جیل میں ڈالنا ہے تو ڈال دیں۔ ملک میں کسی قسم کی خرابی نہیں چاہتے۔ سب کہہ رہے ہیں میری آواز پر لبیک کہیں گے۔ کال دینے کی نوبت آئی تو کال دوں گا۔ جیل کے اندر رہوں یا باہر، جہاں سے بھی آواز دوں گا عوام نکلیں گے۔

جمعہ کو احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے خلاف لندن فلیٹس ریفرنس کی سماعت جج محمد بشیر کی عدم حاضری کے باعث نہ ہو سکی اور ڈیوٹی جج نے سماعت بغیر کسی کارروائی کے 9 اپریل تک ملتوی کردی ہے۔

کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ نیب کا قانون کالا قانون ہے جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بنایا تھا اور اس کا مقصد سیاست دانوں کو سزا دینا تھا لیکن انشاء اللہ ہم اس قانون کو ختم کریں گے۔ ابھی میں اسے ختم کرنے کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ میرے خلاف کیس چل رہا ہے۔ اس کا فیصلہ آنے دوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل اور نئی حکومت کے آنے درمیانی عرصے میں اس قانون کو غیر موثر کردیا جائے۔ کل وزیراعظم سے ملاقات میں ان کو آرڈیننس جاری کرنے کی درخواست کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل ہمارے راہنماؤں کے خلاف نیب کے بے بنیاد مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ نیب ہمارے راہنماؤں کو ہراساں کرنے کا ادارہ بن گیا ہے۔ نیب (ن)لیگ کے حمایت یافتہ لوگوں کو ٹارگٹ کررہا ہے۔ چیف جسٹس نیب سے پوچھیں کہ کارکنوں کو ہراساں کرنے کا یہ کون سا وقت ہے۔

نواز شریف نے کہا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے چیف جسٹس نے جو باتیں کیں وہ صحیح تھیں لیکن اگر وہ اپنی بات پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ان سب چیزوں کا نوٹس لیں جو ہو رہی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے تا حیات قائد نوازشریف نے کہا کہ انتخابات ملتوی ہونے کی گنجائش نہیں۔ گزشتہ روز چیف جسٹس نے جو باتیں کیں وہ اچھی لگیں۔ اگر چیف جسٹس شفاف انتخابات کا کہتے ہیں تو ان چیزوں کو ہونے سے روکیں جس کی نشاندہی کی ہے اور اسے وہ اپنے عمل سے بھی ثابت کریں۔

انہوں نے زور دیا کہ تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے مساوی مواقع دئیے جانے چاہئیں۔ نواز شریف کا کہنا تھا ملک میں کسی قسم کی خرابی نہیں چاہتے۔ پاکستان میں خوشحالی کا سفر چلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ این اے 120 میں ہمارے لوگوں کو اٹھایا گیا۔

صحافیوں سے گفتگو میں اپنے اس موقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ سمجھ نہیں آتی سپریم کورٹ نے مجھے نا اہل کیوں کیا؟ دیکھ لیتے ہیں فیصلے سے کیا جزا اور سزا نکلتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں خرید وفروخت ہوئی کیا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ کیا بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد پر از خود نوٹس لیا گیا؟

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ یہ ملک کسی ایک صوبے کا نہیں، بیٹے سے تنخواہ لینے یا نہ لینے پر نا اہل کر دیا۔ عمران خان سب کچھ مان گئے مگر ان کے لیے کوئی اور قانون ہے۔ انہوں نے کہا ہم نظریاتی لوگ ہیں، میرے دائیں بائیں نظریاتی لوگ ہی بیٹھے ہیں۔ کرپشن کی ہوتی تو آج محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو ساتھ نہ ہوتے۔

نواز شریف کا کہنا ہے نہیں چاہتا کسی قسم کی کال دینے کی نوبت آئے۔ اگر نوبت آئی تو کال دینا پڑے گی۔ جیل میں ڈالنا ہے تو ڈال دیں۔ میری ایک آواز پر لوگ آئیں گے۔ بار بار کہہ چکا ہوں اوپن ٹرائل ہونا چاہیئے۔ عوام کو احتساب عدالت کی کارروائی براہ راست دکھائی جائے۔ ہم نے جج کو براہ راست کارروائی دکھانے کا کہا اور اپنی بات پر قائم ہیں۔ کبھی اپنے موقف سے ہٹے نہ کوئی یو ٹرن لیا۔

سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیوروکی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG