قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے مسلح افواج کے سربراہان کی مدتِ ملازمت اور اس میں توسیع سے متعلق قانون سازی کی متفقہ طور پر منظوری دی ہے۔ یہ بل اب منگل کو ایوان میں رائے شماری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے امید ظاہر کی ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترامیم متفقہ طور پر منظور ہو جائیں گی۔
قائمہ کمیٹی نے یہ منظوری ایک ہفتے کے دوران دوسری بار دی ہے۔ اس سے قبل جمعے کو سینیٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے مشترکہ اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قانونی بل منظور کیے گئے تھے۔
پاکستان کی فضائی، بحری اور برّی فوج کے ایکٹ میں ترمیم کا بل جمعے کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد مزید کارروائی کے لیے قائمہ کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا۔
سینیٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا مشترکہ اجلاس بھی جمعے کو ہی منعقد ہوا جس میں مسلح افواج کے سربراہان کے حوالے سے قانونی بل منظور کر لیے گئے تھے۔
لیکن مجوزہ قانونی بلوں کی منظوری میں قوائد و ضوابط کو نظر انداز کیے جانے پر پیر کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس بلا کر دوبارہ منظوری لی گئی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا بند کمرہ اجلاس چیئرمین امجد خان نیازی کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے امجد خان نیازی نے کہا کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری اور مدت ملازمت کے حوالے سے ترمیمی قوانین متفقہ طور پر منظور کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قومی مفاد اور سلامتی کے امور میں تمام سیاسی جماعتیں ایک رائے رکھتی ہیں۔
وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے کمیٹی اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ اپوزیشن کی جانب سے مجوزہ ترمیمی بل میں کچھ ترامیم پیش کی گئیں۔ لیکن انہیں وضاحت کی کہ اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی۔
ان کے بقول اس وضاحت پر اپوزیشن جماعتوں نے اپنی ترامیم واپس لے لیں۔
خیال رہے کہ حکومت کی خواہش ہے کہ افواج کے سربراہان سے متعلق اس قانون سازی کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے متفقہ طور پر منظور کرایا جائے۔ لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس عمل میں حکومت کو جلد بازی نہ کرنے اور پارلیمانی قوائد کو بروئے کار لانے پر زور دے رہی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے بھی افواج سے متعلق قانون سازی میں پارلیمنٹ کی جلد بازی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں کمیشن نے کہا ہے کہ افواج کے سربراہان سے متعلق قانون سازی میں جلد بازی مستقبل میں جمہوری فیصلہ سازی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ اس کے قبل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی حکومتی سمری پر سپریم کورٹ نے قانونی اعتراضات اٹھاتے ہوئے اس معاملے پر چھ ماہ میں قانون سازی کا حکم دیا تھا۔