میانمار کی ریاستِ رخائین میں تنازع یا تکرار کوئی نیا معاملہ نہیں۔
سنہ 2012 میں رخائین کی بودھ اکثریتی آبادی اور روہنگیا مسلمان اقلیت کے درمیان تشدد بھڑک اٹھا۔ یہ تنازعہ بڑھتا رہا۔ اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کے ادارے نے اِس کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 145000 بتائی ہے۔
گذشتہ ماہ، 9 اکتوبر کے روز تناؤ نے بدترین شکل اختیار کرلی، جس سے قبل شدت پسندوں نے سرحدی پولیس کے نو اہل کاروں کو ہلاک کیا۔ اب تک، جھڑپوں کے دوران کم از کم پانچ فوجی اور 33 باغی ہلاک ہوچکے ہیں۔
تازہ ترین واقعات کے نتیجے میں متعدد برسوں سے جاری کشیدگی اور خطے میں امن کے امکانات پر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
ایسے میں جب آنگ سان سوچی فی الواقع ملک کی سربراہ ہیں، جنھیں ملکی مشیر کے فرائض سونپے گئے ہیں، اُن کی جماعت ’نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی (این ایل ڈی)‘ نے پانچ ماہ قبل اقتدار سنبھالا تھا۔ تب سے، نہیں لگتا کہ عہدہ سنبھالنے والی نئی حکومت نے فوج کی زیادتیاں بند کرنے کے سلسلے میں کوئی خاص کام کیا ہو۔ امریکی محکمہٴ خارجہ، سرگرم کارکنان، اور حقوقِ انسانی کے گروہوں نے بھی ریاستِ رخائین میں جاری جنسی زیادتیوں اور قتل کے واقعات کی اطلاعات پر اظہارِ تشویش کیا ہے، اور متعدد برسوں سے جاری تناؤ کے بعد خطے میں امن کے امکانات کے بارے میں نئے سوالات نے جنم لیا ہے۔
نا نیو، ستوے میں مقیم ہیں، جو ریاستِ رخائین میں واقع ہے۔ وہ داخلی طور پر متاثرہ لوگوں میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہم کب تک یہاں رہیں گے۔ ہم اپنے گھروں کی جانب واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو مسلمان دہشت گرد ہم پر حملہ کر دیں گے‘‘۔
ہنٹر مارسٹن میانمار کے ایک غیر جانبدار تجزیہ کار ہیں، جو اِس سے قبل امریکی سفارت خانے میں فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ اُنھوں نے توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ سنہ 2012 میں بھڑک اٹھنے والے فسادات زیادہ تر ختم ہو چکے ہیں۔ مارسٹن کے بقول ’’روہنگیا تارکین وطن کے کیمپوں تک محدود ہیں، جو انتہائی پریشان کُن صورت حال ہے۔ تاہم، گذشتہ ماہ کے دوران تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا، جس سے اس بات کا امکان ہے کہ پھر سے بلوے بھڑک اٹھیں گے، چونکہ ماحول جوں کا توں ہے‘‘۔
ایسی صورت حال میں یہ سوچنا دشوار تر ہوگا آیا تشدد کی حالیہ کارروائیوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، چونکہ بہت ہی کم اطلاعات فراہم کی جا رہی ہیں۔ مارسٹن کے الفاظ میں، ’’یہ کہنا مشکل ہے آخر یہ ہو کیا رہا ہے‘‘۔