میانمار نے بنگلہ دیش میں محصور 7 لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس لینے کے لیے عالمی دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور وہ انہیں میانمار میں واپس لانے پر رضامند ہو گیا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے علم برداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ میانمار کا یہ وعدہ جھوٹا ثابت ہو سکتا ہے۔
میانمار نے پناہ گزینوں کی واپسی کے سلسلے میں گزشتہ اختتام ہفتہ سے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور اس کے سیکرٹری خارجہ نے دس رکنی وفد کے ہمراہ کوٹوپالونگ پناہ گزین کیمپ میں روہنگیا پناہ گزینوں کے نمائندوں سے مذاکرات کیے ہیں۔ روہنگیا نمائندوں نے بات چیت کے دوران واپسی کے لیے شہریت اور تحفظ کی ضمانت کی بنیادی شرائط رکھی ہیں۔
تاہم میانمار کے وفد نے مطلوبہ مراحل مکمل کر کے غیر ملکیوں کے طور پر روہنگیا افراد کو شہریت دینے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ملک نے نیشنل ویری فیکیشن کارڈ (این وی سی کارڈ) کے لیے درخواستیں قبول کرنا شروع کر دی ہیں۔
بعض روہنگیا افراد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نیشنل ویری فیکیشن کارڈ کو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایک روہنگیا مسلمان پناہ گزین خاتون تشمیدا کا کہنا ہے کہ روہنگیا این وی سی کارڈ قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ قومی شناختی کارڈ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روہنگیا افراد اسی وقت واپس جائیں گے جب انہیں میانمار کی قومیت دی جائے گی۔
تشمیدا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ واپس جانے کی صورت میں روہنگیا برادری کا قتل عام دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ واپسی کی صورت میں روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کی دوسری قومیتوں کی طرح ملک میں آزادانہ نقل و حرکت کا حق اور فوج، پولیس اور دیگر سرکاری محکموں میں روزگار کے مواقع دیے جائیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے ایشیا ڈویژن کے ڈپٹی دائریکٹر فِل رابرٹسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ میانمار شہریت کے حوالے سے بات چیت کے دوران محض کھیل کھیل رہا ہے اور وہ اس بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
روہنگیا اس سے پہلے اکتوبر میں بھی واپسی کی پیشکش کو ٹھکرا چکے ہیں۔
روہنگیا مسلمان اس وقت نقل مکانی کر کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے جب روہنگیا عسکریت پسندوں کے سیکورٹی چوکیوں پر حملوں کے جواب میں میانمار کی فوج نے اگست 2017 میں ریخائن صوبے میں آباد روہنگیا مسلمانوں کے گھروں کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا تھا۔
میانمار کی فوج کی طرف سے قتل، جنسی زیادتیوں اور لوٹ مار کے مسلسل واقعات کے بعد اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ ان فوجی کارروائیوں کا مقصد روہنگیا افراد کی نسل کشی تھا۔
میانمار میں بودھ اکثریت میں ہیں اور روہنگیا مسلمانوں کو 1982 میں قومیت کے قانون سے خارج کر دیا گیا تھا۔