امریکی مسلمان خود کو ایک ایسے صدر کی حکومت میں زندگی گزارنے کے لیے تیار کر رہے ہیں جنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران غیر ملکی مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔ امریکہ کی مسلمان کمیونٹی میں اس بارے میں خاصی تشویش اور غیر یقینی پائی جاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت ان کے لیے کیسی رہے گی۔
وائس آف امریکہ نے اس سلسلے میں کئی مسلمانوں سے اس حوالے سے بات کی۔ امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیئر بورن کے عرب امریکی نیشنل میوزیم میں انتخابات کی رات نتائج جاننے کے لیے جمع ہونے والے افراد میں سے بہت کم کو امید تھی کہ اس الیکشن کے فاتح ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے۔
یہ عرب نژاد امریکی عبداللہ حمود ہیں جو کہہ رہے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم نسل پرستی اور نفرت کی بنیاد پر چلائی تھی۔ اور یہ خیال ہی خاصا وحشت ناک ہے کہ انہیں اسی بنیاد پر ووٹ ملے ہیں۔
عبداللہ حمود خود بھی ان انتخابات میں امیدوار تھے اور ریاست مشی گن کے ایوان نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ انتخابات کی رات ان کے جذبات ملے جلے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں نتیجہ بالکل مختلف نکلا اور ڈیئر بورن کی تاریخ میں پہلی بار لوگوں نے ایک عرب نژاد امریکی مسلمان کو اپنا نمائندہ منتخب کیا۔
حمود کو اندازہ ہے کہ ان کے حلقے میں ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جنہوں نے ریاستی اسمبلی میں نمائندے کے لیے انہیں ووٹ دیا اور صدر کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو۔
عبداللہ حمود کہتے ہیں کہ مجھے یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ میں اور میرے اہلِ خانہ ابھی میری فتح کا جشن منا رہے ہیں اور کل صبح میں اپنی والدہ اور بہن کوجو حجاب کرتی ہیں خبردار کر رہا ہوں گا کہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ذرا احتیاط کریں۔
آشا نور عرب کمیونٹی سینٹر فار اکنامک اینڈ سوشل سروسز یعنی ایکسس سے منسلک ہیں اور انتخابی نتائج سے خوش نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انتخابی نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نسل پرستی اور انتقام کا جذبہ کامیاب رہا ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ شاید امریکی معاشرہ کبھی روادار تھا ہی نہیں اور امریکی ہمیشہ سے ہی بعض قوموں کو ناپسند کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ خوف اور خدشات کا شکار ہونے کے بجائے آشا آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا موقف لوگوں پر واضح کرنا ہوگا۔ لوگوں کو بتانا ہوگا کہ ہم کون ہیں۔ انہیں بتائیں کہ ہم کہیں نہیں جانے والے۔ یہ ملک ہمارا بھی اتنا ہی ہے جتنا کسی اور کا۔ ہم نے ہمیشہ اس ملک کی خدمت کی ہے اور کرتے رہیں گے۔
اخبار عرب امریکن نیوز کے ناشر اسامہ سبلانی کہتے ہیں کہ گو کہ بہت سے امریکی مسلمانوں نے صدارت کے لیے ہلری کلنٹن کو ووٹ دیا تھا لیکن ان کے دورِ صدارت سے بھی انہوں نے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی تھیں۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ امریکی مسلمان انتخابی ماحول سے خاصے دل برداشتہ تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس بار کوئی امیدوار امریکی مسلمانوں یا عرب مسلمانوں کا پسندیدہ تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے ہلری کلنٹن کو ووٹ دینے کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا کہ ہلری کوئی بہت اچھی امیدوار تھیں بلکہ اس لیے کیا کہ مسلمانوں کو ڈونلڈ ٹرمپ سخت ناپسند تھے۔
عرب امریکن نیوز کے لیے یہ ایک تاریخی انتخاب تھا کیوں کہ اخبار نے اپنی 32 سالہ تاریخ میں پہلی بار صدارتی انتخاب میں شریک کسی امیدوار کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ یہی نہیں بلکہ اخبار کے ناشر اسامہ سبلانی نے کسی صدارتی امیدوار کو ووٹ بھی نہیں دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ میں خود بھی ایک ری پبلیکن ہوں۔ بلکہ شاید یہ کہنا چاہیے کہ ایک ری پبلیکن تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے نتیجے میں ری پبلیکن پارٹی اور ہماری کمیونٹی کے درمیان تعلق اور رابطوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جسے درست کرنے کے لیے ری پبلیکن کو سخت محنت کرنا ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ ذمہ داری ہے جو نو منتخب ری پبلیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کانگریس کے ساتھ مل کر انجام دینا ہوگی جس کے دونوں ایوانوں میں اب ری پبلیکنز اکثریت میں ہیں۔