رسائی کے لنکس

ایسے میں جب صدارتی انتخابات دور نہیں، امریکی مسلمانوں کے تاثرات


سب وے اشتہارات
سب وے اشتہارات

مبینہ ڈر خوف کی فضا کا ذکر کرتے ہوئے، احمد صبوح کہتے ہیں کہ ’ذاتی حیثیت سے، یہ جذبات ہماری زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ چاہے یہ کام کی جگہ ہو، اسکول ہو، مال میں چلتے وقت، سڑک پر گھومتے ہوئے۔ لوگ ڈر خوف کا تاثر دیتے ہیں‘

حالانکہ امریکی مسلمانوں کی تعداد نسبتاً تھوڑی ہے، جو بالغ آبادی کے ایک فی صد سے بھی کم ہے، سیاستی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اِس سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں اُن ریاستوں میں جہاں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، یہ ووٹر بھی کافی فرق کا باعث بن سکتے ہیں، مثال کے طور پر فلوریڈا، اوہائیو، ورجینیا اور پنسلوانیہ میں۔

اورینج کاؤنٹی کی اسلامی سوسائٹی کی جامع مسجد، جو جنوبی کیلی فورنیا میں واقع ہے، ایک رضاکار نے مسلمان امریکیوں سے کہا ہے کہ وہ جمعے کو نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد ووٹر کے طور پر اپنا نام ضرور درج کرائیں۔

فرید فرخی، اکاؤنٹنٹ ہیں اور اورینج کاؤنٹی کی اسلامک سوسائٹی کے سربراہ ہیں۔ اُن کی تنظیم تعلیم سے لے کر ماحولیاتی تپش کے معاملے تک اپنی تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہے۔

اسد شفیق شعبہٴ کاروبار کی تدریس کے پروفیسر ہیں۔ وہ نسلی اور آمدن کی عدم مساوات کے معاملوں پر اظہار ِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ’گذشتہ 40 سے 50 برسوں کے دوران، یہ خلا بڑھتا جا رہا ہے، اور یہ کہ ایک امریکی کی حیثیت سے ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں؟

اِن معاملوں کے پیش نظر، مسلمان ووٹر کہتے ہیں کہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران اُنھیں ہدفِ تنقید بنایا گیا۔

ڈر خوف کی فضا

گذشتہ جمعے کو مہمان خطیب کے طور پر احمد صبوح کو مدعو کیا گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ امریکی مسلمان سیاسی طور پر مختلف الخیالی کے حامل ہیں۔ لیکن، اِس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف بیانات، خوف کی فضا پیدا کرنے اور مسلمانوں کو ہدف تنقید بنانے والے کلمات سن سن کر تھک چکے ہیں؛ جنھیں، بقول اُن کے، ’متعدد صدارتی امیدوار دہراتے رہتے ہیں‘۔

بقول اُن کے، ’ذاتی حیثیت سے، یہ جذبات ہماری زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ چاہے یہ کام کی جگہ ہو، اسکول ہو، مال میں چلتے وقت، سڑک پر گھومتے ہوئے۔ لوگ ڈر خوف کا تاثر دیتے ہیں‘۔

صبوح ایک مقامی دنداں ساز اور ایک قریبی مسجد کے خطیب ہیں۔ وہ ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں، ڈونالڈ ٹرمپ اور بین کارسن کے بارے میں یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ چند مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے پر، بقول اُن کے، ’اُنھوں نے ملک میں مسلمانوں کے داخلے پر عارضی پابندی کی بات کی۔ کارسن نے یہ تک کہا ہے کہ اسلام امریکی سیاست سے وارا نہیں کھاتا‘۔

’دی اورینج کاؤنٹی کریسنٹ اسکول‘، جو اِس مسجد سے منسلک تعلیم گاہ ہے، بچوں کو مدنیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ نائب پرنسیپل، لیلیٰ کا کہنا ہے کہ اسکول کے بچے 32 مختلف کاؤنٹیز سے تعلق رکھتے ہیں۔

بقول اُن کے، ’اُن میں مشترک بات یہ ہے کہ وہ سب مسلمان ہیں۔ لیکن، ہم سب تمام لوگوں اور شہریوں کے جمہوری حقوق اور آزادی میں یقین رکھتے ہیں‘۔

ووٹ دینے ضرور جائیں

لاس انجلیس میں افریقی امریکیوں کےمضافات میں واقع ایک اور اسلامی اسکول، ’اصلاح اکیڈمی‘ کے طالب علم عربی زبان کا مطالعہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی مدنیت سے متعلق علم حاصل کرتے ہیں۔ اسکول کی سربراہ، عزیزہ علی ریگن کے بقول، ’وہ کردار سازی اور قیادت کے رموز کا مطالعہ کرتے ہیں‘۔

امریکی مسلمانوں کی تقریباً دو تہائی تارکینِ وطن پر مشتمل ہے۔ اردن سے تعلق رکھنے والے ایک پناہ گزیں، حیثم بندکجی ریئل اسٹیٹ کے سرمایہ کار ہیں۔ اُن کے الفاظ میں، ‘ہم نے یہ شہریت خود اختیار کی ہے‘۔

بقول اُن کے، ’ہم نے خود یہاں رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور اِس برادری کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہے، کیونکہ یہ ایک عظیم ملک ہے۔ اِس نے ہم پر اپنے دروازے کھول دیے ہیں‘۔

افریقی امریکیوں میں مسلمان ایک بااثر اقلیت ہیں اور وسطی لاس انجلیس کے قریب آباد ایک برادری کے سرگرم کارکن، عمر حکیم کو بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں خدشات ہیں۔ حکیم کہتے ہیں کہ حالانہ وہ امریکہ ہی میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے، اُن کی کمیونٹی کے مسلمانوں کو تعصب سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔

بقول اُن کے، ’اِس لیے، رواں سال، ہمارا دھیان اس بات پر مرکوز ہے کہ ہم ووٹ دینے جائیں اور امریکہ میں اپنے ووٹوں کا اندراج کرائیں تاکہ ہمارے ووٹ بڑھیں اور اپنی آواز کو مضبوطی سے اٹھائیں‘۔

فرید فرخی کا جنم بھارت کا ہے۔ وہ ایسے صدارتی امیدواروں کو اہمیت دیتے ہیں جو سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ ’ہم سب ایک ہی خدا میں ایمان رکھتے ہیں، انسانیت اور خاندان کے ادارے کو اہمیت دیتے ہیں۔ پھر، یہ کہنا کہ کوئی دوسرا ہم سے مختلف ہے، یا کسی کو اس ملک سے باہر نکالا جائے، کم از کم یہ امریکی سوچ کا غماز نہیں ہو سکتا‘۔

’پیو رسرچ سینٹر‘ کا کہنا ہے کہ سنہ 2050 میں مسلمانوں کی تعداد یہودی امریکیوں سے زیادہ ہوجائے گی، جو تعداد ملکی آبادی کی دو فی صد سے بڑھ جائے گی۔



XS
SM
MD
LG