ہمارے دن کا آغاز عام طورپر چائے یاکافی کے ایک کپ سے ہوتا ہے، سفر کے لیے ہم پبلک یا پرائیوٹ ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ اورپھر اپنے دن کا زیادہ تر حصہ کمپیوٹر اور اسی طرح کے دوسرے آلات پر کام کرتے ہوئے گذارتےہیں۔ ہمارے شب و روز ایسی بے شمار چیزوں کے ساتھ گذرتے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کا دھیان اس طرف جاتا ہے کہ ان میں سے اکثرچیزوں کی بنیاد قرون وسطی کے مسلمانوں کی تحقیق اور ایجادات ہیں۔ اسی حوال سے لندن کے سائنس میوزیم میں ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا ہے۔
کافی ، لاٹے، کیپاچینو اور اسپریسو اس کا استعمال تقریبا تمام معاشروں میں بہت عام ہے۔ لیکن قہوے کی یہ مختلف شکلیں دراصل آج کے یمن میں تشکیل پائیں۔ پروفیسر سلیم الحسنی جو کہ یونیورسٹی آف مانچسٹر سے تعلق رکھتے ہیں کے مطابق یمن میں کافی بینز دراصل ایتھوپیا سے لائی گئی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یقینا کافی کی ایجاد اسلام کے اولین برسوں میں ہوئی تھی۔ اور اسے ایتھوپیا میں خالد نامی ایک چرواہے نے دریافت کیا تھا۔
ایک روایت کے مطابق، بھیڑیں کافی کی بینز پسند کرتی تھیں۔خالد اسے یمن لے گیا اور اس طرح کافی کا استعمال شروع ہوا۔ اسی طرح کئی ایسی ایجادات اور دریافتیں ہیں جو کہ ہمیں ساتویں صدی کے مسلم سائنسدانوں اور اسکالرز سے ملی ہیں۔
ان میں سے ایک ایجاد یونیورسٹی کی بھی ہے۔جو کہ 850ء میں ایک خاتون فاطمہ الفرہی کے ہاتھوں مراکش کے شہر فیض میں انجام پائی۔یہ ہمارے علم کے مطابق ڈگری دینے والی دنیا کی پہلی یونیورسٹی تھی۔
لندن کے سائنس میوزیم میں ہونے والی اس نمائش کے ایک حصے کاموضوع ہے۔ ایک ہزار ایک ایجادات اور مسلم ثقافت ۔یہ عنوان کسی حد تک مشہور داستان الف لیلی سے ماخوذ ہے۔ اس نمائش کا مرکزوہ سائنسی ایجادات اور ترقی ہے جس نے آج کی دنیا ممکن بنایا ہے۔ یعنی یونیورسٹیاں، طبی ایجادات، ہائی جین، پمپس، اور واٹر وہیلز۔ کیا یہ سب کچھ فراموش کردیا گیا ہے؟ ذرا مسلم ممالک میں عام لوگوں سے بات کریں، جنہیں اسلام کا شاندار ماضی بشمول فتوحات ، ثقافتی ترقی اور سائنسی ایجادات سب کچھ اچھی طرح سے معلوم ہے۔ ۔۔ یہ ایجادات اور ترقی اسلامی دنیا میں اس وقت ہوئیں جب یہ ثقافت مشرق وسطیٰ سے لے کر شمالی افریقہ اور اسپین تک پھیلی ہوئی تھی۔
پروفیسر سلیم الحنسی کہتے ہیں کہ اس وقت تقریبا ہزار سال پہلے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں زبردست ترقی ہوئی۔ہمیں بہت کچھ دوسری تہذیبوں سے ملا ہے جس میں ایک اہم تہذیب مسلم تہذیب ہے۔
مسلمانوں نے علم انڈیا، چین، یونان اور قدیم مصری تہذیب سے حاصل کیا اور اسے آگے بڑھایا۔ ایلفنٹ کلاک ایک مسلم موجد، ریاضی داں اور انجنیئر ال جزاری نے 13 ویں صدی میں بنایا تھا۔
این میری برینن لندن کی ساوتھ بنک یونیورسٹی میں فورنسک بیالوجی پڑھاتی ہیں۔وہ ان مسلم ایجادات سے بہت متاثر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نمائش میں رکھے گئے ایلفنٹ کلاک کا ماڈل بہت خوب ہے۔یہ مختلف تہذیبوں کے عناصر شامل ہونے کی وجہ سے لگتا ہے کہ ایک اقوام متحدہ ہے۔اور بحیثیت ایک سائنسدان کے یہ مجھے بہت پسند ہے۔
ریاضی اور الجبرا کو لیجیئے۔۔آج ہم ہندسوں کو عربی ہندسے کہتے ہیں۔لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔پروفیسر سلیم کہتے ہیں کہ آج ہمارے ہندسے یعنی 1،2،3،4۔۔ جنہیں ہم عربی ہندسے کہتے ہیں ، عرب انہیں انڈین ہندسے کہا کرتے تھے۔
اور زیرو کا ہندسہ جسے عربی میں صفر کہا جاتا ہے، اسے عربو ں نے سب سے پہلے ریاضی کی مساواتوں میں استعمال کیا تھا۔اوریہی زیرو اور ایک کا ہندسہ کمپیوٹرز اور دوسری ٹیکنالوجی کی تیاری میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ذرا سوچیں کہ آج ہماری دنیا بغیر کافی کے کیسے ہوتی۔