امریکہ کی فوج کی تحقیقات کے مطابق امریکی فورسز کی افغانستان کے شہر قندوز میں ایک اسپتال پر آدھے گھنٹے تک فضائی بمباری کی وجہ ہدف کی غلط شناخت تھی، جس میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہو گئے جن کی اکثریت ڈاکٹروں اور مریضوں پر مشتمل تھی۔
افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے سربراہ جنرل جان کیمبل نے کہا کہ افغان فورسز نے امریکہ کو افغان خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کی ایک عمارت پر فضائی حملے کے لیے کہا تھا جس کے بارے میں خیال تھا کہ اس میں طالبان جنگجو چھپے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اے سی 130 کے عملے نے اس کی بجائے عالمی امدادی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے زیر انتظام ایک اسپتال پر 211 شیل برسائے جو این ڈی ایس کی عمارت سے 450 میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔
کیمبل نے بدھ کو کابل میں کہا کہ ’’یہ ایک المناک غلطی تھی۔ یہ انسانی اور عملی غلطی کی ایک مثال ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسی انسانی غلطی سے ہوا جس سے بچا جا سکتا تھا۔‘‘
غلطی کہاں ہوئی
کیمبل نے کہا کہ کئی عوامل اس غلطی کا سبب بنے۔ فضائی عملے نے کارروائی طے شدہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ہی شروع کر دی جس سے ایک اہم بریفنگ چھوٹ گئی جس میں عموماً ہدف کے آس پاس ایم ایس ایف اسپتال جیسی تنصیبات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
جب بمباری شروع ہو گئی تو جنگی جہازوں کے الیکٹرانک نظام میں خرابی پیدا ہو گئی جس سے عملہ نہ وڈیو بھیج سکتا تھا نہ ای میل یا ایس ایم ایس بھیج یا وصول کر سکتا تھا۔
کیمبل نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ عملے کو پھر محسوس ہوا کہ انہیں میزائل سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اس لیے وہ جہاز کو بمباری کے عمومی فاصلے کی حد سے دور لے گئے جس سے ہدف بندی کے نظام کی درستگی متاثر ہوئی۔ درستگی متاثر ہونے سے عملے کو اپنے ہدف کے نقاط ایک میدان میں نظر آئے۔ عملے نے اس میدان کے ’’قریب ترین اور بڑی‘‘ عمارت کو دیکھ کر سمجھا کہ یہ ان کا ہدف ہے اور اس پر بمباری شروع کر دی۔
کیمبل نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث کچھ فوجی عملے کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی اسپتال کی تعمیر نو میں مدد کرنا چاہتا ہے۔
کیمبل کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ولسن شوفنر نے کہا کہ ’’کچھ افراد نے جنگ کے ضوابط کی پاسداری نہیں کی۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا عالمی قانون کے تحت اتنے شدید حملے کا جواز موجود تھا تو ترجمان نے کہا کہ ’’فضائی عملے کے ارکان کے اقدامات ان کو درپیش خطرے سے متناسب نہیں تھے۔‘‘
کیمبل نے کہا کہ ’’کوئی اور ملک شہریوں کے جانی نقصان کو روکنے کے لیے اتنے اقدامات نہیں کرتا جتنے امریکہ کرتا ہے مگر 3 اکتوبر کو ہم اپنی اعلیٰ توقعات پر پورا اترانے میں ناکام رہے۔‘‘
افغان، ایم ایس ایف رد عمل
افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ امریکی تحقیقات نیٹو کی تحقیقات سے مطابقت رکھتی ہیں۔
’’امریکی تحقیقات میں کسی حقائق یا شواہد کو نظرانداز نہیں کیا گیا، اس میں غلطیوں کو تسلیم کیا گیا اور اس سے حکام کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور جہاں مناسب ہو گا افراد کا احتساب کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے کہا کہ امریکی تحقیقاتی رپورٹ میں امریکی فورسز کی ’’سنگین غفلت‘‘ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ تنظیم نے اس موقع پر ایک مرتبہ پھر بیرونی، آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
’’یہ بہت حیران کن بات ہے کہ جب امریکی فورسز کی نظریں ہدف پر نہ ہوں، نہ ہی ان کے پاس ان علاقوں کی فہرست ہو جن پر بمباری نہیں کی جا سکتی، اور ان کے مواصلاتی نظام میں خرابی بھی ہو تب بھی حملہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اس حملے سے چند دن قبل تنظیم نے امریکی فوج کو اسپتال کے عین مقام کے بارے میں اطلاع دی تھی۔
اسپتال پر بمباری 29 منٹ تک جاری رہی جس کے بعد کمانڈروں کو احساس ہوا کہ ان سے غلطی ہوئی۔ اس دوران اسپتال کے عملے نے امریکہ اور افغان حکام سے رابطہ کرنے کی 18 مرتبہ کوشش کی تاکہ ان کو بتا سکیں کہ ان پر حملہ کیا جا رہا ہے۔
کیمبل نے کہا کہ ’’جس عملے نے اس حملے کی درخواست کی تھی اور جنہوں نے اس پر عملدرآمد کیا انہوں نے ہدف کے درست ہونے کی تصدیق کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔‘‘
اسپتال میں بہت سے ڈاکٹر اور نرسیں فوراً ہلاک ہو گئے اور جن مریضوں کو فوراً کسی محفوظ مقام پر منتقل نہیں کیا جا سکا وہ بمباری سے لگنے والی آگ میں لقمہ اجل بن گئے۔ کم از کم 37 دیگر افراد زخمی ہوئے۔ تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ حملے سے مزید جانی نقصان ہوا۔
امریکہ کی افغانستان میں 14 سال سے جاری فوجی کارروائیوں میں یہ حملہ شہری جانی نقصان کے بدترین واقعات میں سے ایک تھا۔
3 اکتوبر کو ہونے والے واقعے کے چند دن بعد امریکی صدر براک اوباما نے ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی صدر جواین لیو سے غلطی سے ہونے والے حملے پر معذرت چاہی اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔