رسائی کے لنکس

سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے تباہی، لاکھوں ایکڑ زمین زیرِ آب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبۂ سندھ کے مختلف اضلاع میں بارشوں اور سیلاب سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ صوبے میں اس مون سون سیزن میں اب تک 136 افراد ہلاک جب کہ 80 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

سندھ کے مختلف علاقوں میں شدید بارشوں اور سیلابی صورتِ حال کے باعث 23 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جب کہ 10 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلی منافع بخش فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔

بارشوں اور سیلاب سے 77 ہزار سے زائد گھر بھی تباہ ہوئے ہیں جب کہ ایک لاکھ 37 ہزار سے زائد گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح صوبۂ سندھ میں 45 ہزار سے زائد مویشی بھی سیلاب اور بارشوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

سندھ بھر میں 15 ہزار سے زیادہ دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے اب تک 196 ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں جن میں 23 ہزار سے زائد افراد مقیم ہیں۔

صوبے کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہٰ یار، میرپور خاص، مٹیاری، سجاول، ٹھٹھہ، بدین، دادو، جامشورو، شہید بینظیر آباد، سانگھڑ، نوشہرو فیروز، جیکب آباد اور تھرپارکر کے بعض علاقے شامل ہیں۔

کراچی میں بارشوں سے ہونے والی تباہی کی کہانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:56 0:00

ان علاقوں میں لاکھوں ایکڑ زمین زیرِ آب آنے سے گھروں اور فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ مال مویشی بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے یا پھر مر گئے ہیں۔ اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے لوگ اونچے مقامات پر بے سر و سامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

سیلابی ریلوں کے باعث کچھ دور دراز دیہات کا زمینی رابطہ کٹ گیا ہے جب کہ لوگ مشکل سے اپنا بچا کچھا سامان لے کر حفاظتی مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔

سندھ نے وفاق سے مدد طلب کر لی

وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کشمور کے قریب واقع گڈو بیراج، سکھر بیراج اور دیگر علاقوں کا دورہ کیا۔ انہوں نے امدادی سرگرمیوں کی تفصیلات حاصل کیں اور بندوں کے معائنے کے ساتھ صورتِ حال کا فضائی جائزہ بھی لیا۔

صوبائی حکومت نے اس صورتِ حال کو گھمبیر اور انسانی مسئلہ قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے فوری مدد کی درخواست کی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ انہوں نے وفاقی حکومت سے سفارش کی ہے کہ آفت زدہ قرار دیے گئے علاقوں میں کسانوں کے زرعی ترقیاتی بینک سے حاصل کردہ قرضے اور ان قرضوں پر ایک سال کے لیے سود کی رقم معاف کی جائے۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ اس وقت صوبے میں صورتِ حال بہت خراب ہے جس سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت اپنی طرف سے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ متاثرین کو خیمے، پکا ہوا اور سوکھا کھانا اور دیگر ضروری اشیا فراہم کر رہی ہے۔

کراچی بار بار کیوں ڈوب جاتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:49 0:00

انہوں نے اس کام کے لیے وزیرِ اعظم سے درخواست کی ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو فوری امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کی ہدایت کی جائے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے متاثرین کے لیے سال 2010 اور 2011 میں شدید بارشوں سے متاثرہ افراد کی مالی امداد کی طرح اس سال بھی ایک لاکھ روپے فی گھرانہ مدد کی سفارش کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ ہلاک ہونے والوں کے اہلِ خانہ کو پانچ لاکھ جب کہ زخمی ہونے والوں کے لیے دو لاکھ روپے امداد کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ نے وزیرِ اعظم کو لکھے گئے خط میں مستقبل میں سیلاب سے بچاؤ کے لیے 43 ارب روپے کے زیر التوا منصوبے پر عمل درآمد کے لیے وفاق سے مدد طلب کی ہے جس کے ذریعے پانی کی نکاسی کے لیے پرانے نالوں کو بحال اور وہاں سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جانا ہے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ معاشی تنگی کی وجہ سے اب تک اس منصوبے پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔

سیلاب زدگان کی مالی مدد پر اپوزیشن جماعتوں کے شکوک و شبہات

سندھ اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اراکین امداد کے درست خرچ ہونے پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

رکنِ صوبائی اسمبلی اور وفاق میں حکومت کی اتحادی جماعت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رہنما نصرت سحر عباسی کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبے میں بے تحاشہ اور ریکارڈ توڑ بارشیں ہوئی ہیں جس سے حالات انتہائی گھمبیر ہیں۔

ان کے بقول "لوگ اپنے گھر بار ڈوبنے پر بندوں اور ٹیلوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ تاہم سال 2010 اور 2011 میں بڑے پیمانے پر امدادی سامان ملنے کے باوجود بھی ہم نے دیکھا کہ وہ سامان متاثرین میں تقسیم ہونے کے بجائے بازاروں میں فروخت ہوا۔ متاثرین کو بڑی تعداد میں کراچی منتقل کیا گیا کہ انہیں وہاں رہائش فراہم کی جائے گی مگر متاثرین کی بڑی تعداد آج بھی جھگیوں میں مقیم ہیں اور انہیں آج تک کچھ نہیں ملا۔"

نصرت سحر عباسی نے کہا کہ اس بار بھی شدید بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ تو قرار دے دیا گیا ہے۔ مگر اس سے ان علاقوں کے مسائل حل اور ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھی جا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا کیسے یقین کر لیا جائے کہ اس مد میں فراہم کیا گیا فنڈ شفاف طریقے سے خرچ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مخالفین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے گورنر سندھ سے فنڈز فراہم کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ متاثرہ لوگوں کی بلا امتیاز مدد کی جاسکے۔

واضح رہے کہ سندھ میں گڈو بیراج کے مقام پر پیر کی صبح اونچے درجے کا سیلاب ہے جہاں سے پانچ لاکھ 14 ہزار کیوسک پانی کا بڑا ریلا گزر رہا ہے۔

آئندہ چند روز میں سکھر بیراج اور کوٹری بیراج کے علاقوں میں بھی اونچے درجے کا سیلاب متوقع ہے جس سے کچے کے علاقوں میں مزید تباہی پھیلنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

ادھر آبادگاروں کا کہنا ہے کہ عمرکوٹ، سانگھڑ، بدین، میر پور خاص، حیدر آباد اور دیگر اضلاع میں سیم نالوں اور نہروں میں شگاف پڑنے سے ہزاروں ایکڑ فصل زیرِ آب آ گئی ہے جس سے ان علاقوں میں کپاس اور مرچ کی فصل کو بے حد نقصان پہنچا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق صوبے میں کپاس کی 40 فی صد فصل ضائع ہو گئی ہے جس کا اثر ملکی برآمدات پر بھی نظر آنے کا امکان ہے جب کہ گندم کی فصل بونے میں بھی تاخیر ہو سکتی ہے جس سے صوبے میں آئندہ سال گندم کی پیداوار کم رہنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG