فرانس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات اور بے تکلفی پر پاکستان کے سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے جان بوجھ کر کشمیر اور پاکستان کے معاملے پر ہندی میں بات کی تاکہ صدر ٹرمپ کو سمجھ میں نہ آ سکے۔
اُن کے بقول، بھارت امریکہ کا خطے میں اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ اس کے باوجود امریکہ کشمیر کے معاملے پر غیر جانبدار ہے۔
خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر ثالثی کی مشروط پیشکش کی جسے بھارت نے مسترد کر دیا۔
خیال رہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تمام معاملات دو طرفہ ہیں۔ لہذٰا، اس میں کسی تیسرے ملک کو زخمت نہیں دیتے۔ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر دونوں ممالک چاہیں تو وہ ثالثی کے لیے تیار ہیں۔
صدر ٹرمپ اور نریندر مودی اتنے بے تکلف کیوں ہیں؟
صدر ٹرمپ اور نریندر مودی کی ملاقات کے دوران دونوں رہنما ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے اور قہقہے لگاتے دکھائی دیے۔ پاکستان کے مختلف حلقے اس انداز کو نریندر مودی کی ڈھٹائی قرار دے رہے ہیں۔
خورشید قصوری کا کہنا ہے کہ نریندر مودی صدر ٹرمپ سے بے تکلفی ظاہر کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر صدر ٹرمپ بھارت کے مؤقف کے حامی ہیں اور ان کی صدر سے ملاقات کامیاب رہی ہے۔
خورشید قصوری کے بقول، ملاقات پر امریکی محکمہ خارجہ کا بیان واضح ہے کہ صدر ٹرمپ اب بھی دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کے معاملے پر مشروط ثالثی کے لیے تیار ہیں۔
'صدر ٹرمپ غیر متوقع شخصیت کے مالک ہیں'
صدر ٹرمپ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات سے قبل پاکستان میں بعض حلقے اس امید کا اظہار کر رہے تھے کہ امریکی صدر مسئلہ کشمیر پر بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ دو ٹوک بات کریں گے۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ اس ملاقات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صدر ٹرمپ غیر متوقع شخصیت کے مالک ہیں۔ ان سے کسی بھی وقت کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔
اُن کے بقول، اس ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
سابق سفارت کار شاہد امین کہتے ہیں کہ اُنہیں خدشہ ہے کہ کشمیر کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اگر حریت پسندوں اور بھارتی افواج کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں تو عالمی برادری کی تشویش میں اضافہ ہو گا۔
شاہد امین کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ملاقات کے دوران کہا کہ انہیں کشمیر کے حالات پر تشویش ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی وزیر اعظم اس پر ردعمل دیتے اور کہتے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ ان کے بقول، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے مؤقف میں کھلا تضاد ہے۔
شمشاد احمد خان کے بقول، بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت باہمی تنازعات دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کے پابند ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ نریندر مودی نے 1947 کا ذکر کیا۔ ان کا بس چلتا تو وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ پاکستان بھارت کا ہی حصہ ہے۔
کیا صدر ٹرمپ نے مودی کی بات پر یقین کر لیا؟
وزیر اعظم مودی سے ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ نریندر مودی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے حالات کنٹرول میں ہیں۔ خورشید قصوری کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے مودی کی اس بات پر کوئی رد عمل نہیں دیا۔ اُن کے بقول، جموں و کشمیر میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ’’کیا یہ نارمل حالات ہیں؟‘‘
ان کے بقول، امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں ایسا کوئی ذکر نہیں جس میں کشمیر کے حالات کنٹرول میں ہونے کا تذکرہ ہو۔
شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ امریکہ چین کے مقابلے میں بھارت کو اس خطے میں مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ جب تک امریکہ کے چین کے ساتھ معاملات طے نہیں پاتے، اُس وقت تک امریکہ چاہے گا کہ چین کے ساتھ محاذ آرائی میں وہ امریکہ کا ساتھ دے۔
بھارتی میڈیا پر ٹرمپ مودی ملاقات کو بھارت کی سفارتی فتح کے طور پر پیش کیے جانے کے سوال پر خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں بھارتی میڈیا کو ڈرا دھمکا کر ایسا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔