پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے پولیس سربراہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے۔ جس کے تحت پنجاب بھر کے تھانوں میں پولیس اہل کاروں پر موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ صرف ایس ایچ اوز اور محرر کو اس پابندی سے استثنٰی دیا گیا ہے۔
انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس عارف نواز کا یہ حکم ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پنجاب میں پولیس کی زیر حراست ملزمان کی ہلاکتوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آئے روز پولیس تشدد کے باعث ہلاکتوں کے واقعات ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بن رہے ہیں۔
حکم نامے میں پولیس اہل کاروں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ تھانے کے اندر کسی بھی قسم کی ویڈیو بناتے ہوئے پکڑے گئے تو نہ صرف ان کے بلکہ متعلقہ ایس ایچ او کے خلاف بھی تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پولیس حکام کے اس فیصلے کو مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد تھانوں کے اندر پولیس اہل کاروں کو کھلی چھوٹ دینا ہے تاکہ ملزمان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی ویڈیوز سامنے نہ آ سکیں۔
اس سے قبل یہ بھی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں کہ عام شہریوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر بھی سمارٹ فون تھانوں میں لانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ بعدازاں آئی جی پنجاب نے وضاحت کی کہ صرف پولیس اہل کاروں کے لیے یہ پابندی عائد کی گئی ہے۔
کیا پولیس اہل کار خود ویڈیوز بناتے ہیں؟
آئی جی پنجاب عارف نواز کا کہنا ہے کہ رقابت رکھنے والے پولیس اہل کار بھی ایک دوسرے کی ویڈیوز بنانے میں ملوث ہیں۔ جس کی روک تھام کے لیے یہ اقدامات کیے گئے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ تھانوں کو پرامن اور عوام دوست بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول عوام اور پولیس کے درمیان بداعتمادی کی فضا ہے لوگ تھانوں میں آتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
سلمان عابد کہتے ہیں کہ اگر اس طرح کی ویڈیوز باہر آتی ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تھانوں میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ لہذٰا موبائل فون پر پابندی سے ان واقعات کی پردہ پوشی کی بجائے تھانوں میں تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
سلمان عابد کہتے ہیں کہ ایسے مصنوعی اقدامات کی بجائے پولیس اصلاحات کے لیے ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔
'پولیس کے کام میں سختی کرنی پڑتی ہے'
سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید کہتے ہیں کہ جب سے سمارٹ فون اور تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت آئی ہے موبائل فون کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تھانوں میں یہ شکایات عام تھیں کہ پولیس اہل کار کام کی بجائے موبائل فون کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ شوکت جاوید کے مطابق محکمہ پولیس کو یہ بھی شک تھا کہ اندر کے ہی کچھ لوگ ویڈیوز بنا کر لیک کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں پولیس کے کام میں سختی کرنا پڑتی ہے اس لیے اس اقدام میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
پولیس اصلاحات سے متعلق سابق آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ حکومتوں نے پولیس اصلاحات کے معاملے کو ترجیح نہیں دی۔ ان کے بقول خیبر پختونخوا میں اصلاحات کی گئیں اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ شوکت جاوید کا کہنا ہے کہ پنجاب میں سیاسی وجوہات کی بنا پر حکومت پیش رفت نہیں کر سکی۔
پنجاب پولیس کا موقف
پنجاب پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر نایاب حیدر کا کہنا ہے کہ یہ حکم نامہ آئی جی پنجاب کی جانب سے ایک مہینہ قبل جاری کیا گیا تھا۔ ان کے بقول آئی جی پنجاب کے مشاہدے میں یہ بات آئی تھی کہ تھانے میں شہری فریاد لے کر گیا جب کہ پولیس اہل کار اس کی داد رسی کی بجائے موبائل فون استعمال کر رہا ہے۔ نایاب حیدر کہتے ہیں کہ اس پابندی کا عام شہریوں اور میڈیا نمائندگان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں پولیس کی حراست میں مبینہ طور پر ذہنی معذور شخص صلاح الدین کی ہلاکت کے واقعے پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد پولیس کی زیر حراست ملزمان کی ہلاکت کے پے در پے واقعات کے بعد پنجاب پولیس کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ صوبے میں پولیس اصلاحات کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔