رسائی کے لنکس

زیرِحراست ملزمان کی ہلاکت: کیا پولیس اصلاحات سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟


پاکستان میں پولیس اصلاحات پر بحث زور و شور سے جاری ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان میں پولیس اصلاحات پر بحث زور و شور سے جاری ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان پولیس کی زیر حراست ملزم صلاح الدین کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں پولیس اصلاحات پر بحث زور و شور سے جاری ہے۔

چند روز قبل مبینہ طور پر ذہنی معذور شخص صلاح الدین اے ٹی ایم مشین سے کارڈ چوری کے الزام میں پولیس کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہو گیا تھا۔

صلاح الدین کے واقعے کے بعد پاکستان میں پولیس کے شہریوں کے ساتھ رویے اور زیر حراست ملزمان پر تشدد کے باعث محکمہ پولیس شدید تنقید کی زد میں ہے۔

پولیس تشدد کے باعث ملزمان کی ہلاکت کے واقعات اور پولیس کے نجی ٹارچر سیلز کے انکشافات کے بعد خاص طور پر پنجاب پولیس زیر عتاب ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات چند روز کے لیے شہ سرخیوں میں رہتے ہیں اس کے بعد پولیس والے اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچا لیتے ہیں۔

ان واقعات کے بعد پنجاب میں خاص طور پر پولیس اصلاحات اور تھانہ کلچر میں بہتری کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔

پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والا ملزم صلاح الدین۔ (فائل فوٹو)
پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والا ملزم صلاح الدین۔ (فائل فوٹو)

'یہ رویے معاشرے کی مجموعی سوچ کے عکاس ہیں'

سابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس سرمد سعید کہتے ہیں کہ اِس وقت پوری قوم میں ہی کمی ہے کسی ایک محکمے کو ٹارگٹ بنا کر اصلاحات نہیں کی جا سکتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چاہے پولیس والا ہو یا چور یہ سب اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ سرمد سعید کہتے ہیں کے ہمارے معاشرے میں جھوٹ، تشدد، خود غرضی اور لالچ سرایت کر چکا ہے۔ پاکستان کا معاشرتی ڈھانچہ زوال پذیر ہے۔ جہالت، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کے باعث معاشرے میں عدم برداشت بڑھ گئی ہے۔

سرمد سعید کہتے ہیں کہ سب سے پہلے صلاح الدین کو عوام نے پکڑا تھا۔ اس دوران بھی اس کی خوب پٹائی کی گئی۔ لوگ چور کو پکڑ کر اس کی بھی درگت بنا دیتے ہیں یہ عوامل تشدد، غصے اور مایوسی کے عکاس ہیں۔

سرمد سعید بتاتے ہیں کہ جہاں تک پولیس کی حراست میں ملزمان کی ہلاکت کا تعلق ہے تو گزشتہ پانچ سالوں میں ابھی تک لاہور جیسے ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے شہر میں چار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان کے بقول دنیا بھر میں پولیس کی حراست میں ملزمان کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ 19 جولائی کو لندن پولیس کی زیر حراست دو ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

پولیس پر سیاسی دباؤ

سرمد سعید کہتے ہیں کہ پاکستان میں لفظ اصلاحات تو بہت استعمال ہوتا ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ ان کے بقول پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں پولیس اصلاحات کی گردان کرتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں پولیس کو اپنے زیر اثر رکھنا چاہتی ہیں۔

سرمد سعید کے مطابق محض آئی جی تبدیل کر دینا یا قوانین میں تبدیلی سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ تبدیلی اس وقت آئے گی جب نچلی سطح پر کانسٹیل اور تھانے میں موجود پولیس اہل کاروں کے رویے تبدیل ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب اصلاحات لائی جاتی ہیں تو پھر وسائل کی کمی آڑے آ جاتی ہے۔ 2002 کے پولیس آرڈر کی مثال دیتے ہوئے سرمد سعید کہتے ہیں آج تک اس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس اصلاحات کے لیے اب تک 27 کمیشن بن چکے ہیں جو اپنی سفارشات بھی پیش کر چکے ہیں لیکن عملددرآمد ہم سب کے سامنے ہے۔

ماہرین کے مطابق پولیس کے رویے عوام کی مجموعی سوچ کے عکاس ہیں۔
ماہرین کے مطابق پولیس کے رویے عوام کی مجموعی سوچ کے عکاس ہیں۔

پولیس اہل کاروں کے سخت اوقات کار

سرمد سعید کہتے ہیں کہ پاکستان میں پولیس کے علاوہ کوئی ایسا محکمہ نہیں جہاں اوور ٹائم نہ ملتا ہو۔ محکمہ پولیس کے پاس نفری کم ہے جب کہ ان سے آٹھ گھنٹے سے زائد کام لیا جاتا ہے۔ ان کے بقول پولیس کے پاس جدید تفتیش کا طریقہ کار موجود نہیں اس لیے روایتی حربے آزمائے جاتے ہیں۔ ایک تفتیشی اہل کار کے پاس درجنوں کیس ہوتے ہیں ایسے میں اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ شفاف تحقیقات کرے ایسا ممکن نہیں ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں کیا کہتی ہیں؟

پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ صلاح الدین کا کیس پاکستان میں ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کے بقول پولیس جس کو پکڑتی ہے اور سمجھتی ہے کہ کمزور سا کیس ہے ملزم عدالت تک نہیں جا سکتا تو اُس کا فیصلہ خود ہی کر لیتی ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ ہماری پولیس آج بھی 1861 کے غلامی کے دور کے قانون کے مطابق کام کر رہی ہے۔ اس دور میں حکمرانوں نے پولیس کو شہریوں کو ڈرانے کے لیے رکھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ آزاد اور تہذیب یافتہ ممالک میں پولیس عوام کے ساتھ تعاون اور شائستگی کے ساتھ پیش آتی ہے۔

پولیس تشدد کے واقعات پر عدالتی کمیشن کے قیام کے سوال پر ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا یہ محض دکھاوا ہے۔

عدالتی کمیشن کیسے کام کرتا ہے؟

ماہر قانون اور بیرسٹر محمد ذیشان چوہدری کہتے ہیں کہ عدالتی کمیشن عدالت مقرر کرتی ہے۔ وہ یہ کمیشن کسی بھی فریق کی درخواست پر یا حکومت کی درخواست پر تشکیل دے سکتی ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر ذیشان چوہدری نے کہا کہ اگر کسی کیس میں کوئی چیز تکنیکی ہے یا مبہم ہے تو عدالت کمیشن قائم کر سکتی ہے۔ ان کے بقول کمیشن واقعے سے متعلق تمام شواہد اکٹھے کرتا ہے اور گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور پھر تفصیلی رپورٹ بنا کر جمع کروا دی جاتی ہے۔

ذیشان چوہدری کے مطابق کمیشن کی رپورٹ پر عدالت کسی کو براہ راست قصور وار قرار نہیں دے سکتی۔ اگر عدالتی کمیشن کے پاس ایسے شواہد آ جائیں جنہیں جھٹلانا مشکل ہو تو پھر اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

حکومتی مؤقف

ترجمان پنجاب حکومت شہباز گل کا کہنا ہے کہ پولیس اصلاحات کے لیے مسودے پر کام جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو تین ہفتوں میں کام مکمل ہو جائے گا۔ ان کے بقول اس مسودے میں دوران حراست ملزمان پر تشدد کی بیخ کنی کے لیے متعدد اقدامات تجویز کیے گئے ہیں اس ضمن میں ایک نگران ادارہ قائم کرنے کی بھی تجویز ہے۔

XS
SM
MD
LG