پاکستان میں 23 مارچ کو 81 واں یومِ پاکستان منایا گیا جس کے دو روز بعد فوجی پریڈ کا انعقاد بھی کیا گیا۔ ہر برس 23 مارچ کو اس پریڈ کا انعقاد کیا جاتا ہے تاہم کرونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ برس اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ رواں سال موسم کی وجہ سے دو روز کی تاخیر سے اس پریڈ کا انعقاد کیا گیا۔
قومی ایام پر ہونے والی اس طرح کی پریڈز میں ہر ملک اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ فوجی پریڈ کے موقع پر ملک میں تیار ہونے والے نئے ہتھیاروں کو بھی منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پریڈ میں شامل دیگر ممالک کے فوجی دستوں کی موجودگی سے دیگر ممالک سے دوستی اور ریاستی پالیسی بھی ظاہر ہوتی ہے۔
رواں سال پاکستان ڈے پریڈ میں ملک میں تیار ہونے والے ڈرون طیارے 'شاہ پر' کی نمائش بھی کی گئی۔ 'شاہ پر' پرانے ڈرون کا اپ ڈیٹڈ ورژن ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کی فوجی دستے کی شرکت اس بار معمول سے زیادہ تھی جس میں ایف سولہ طیاروں کے ساتھ سولو ترک ٹیم نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
پریڈ میں فری فال مظاہرے میں پیرا شوٹ سے جمپ کرنے والوں میں ترکی، سری لنکا، فلسطین اور بحرین کے پیراٹروپرز نے حصہ لیا۔ ان ممالک کے کیڈٹس پاکستان کی فوج کے تربیتی اداروں بشمول نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان ڈے پریڈ کے انعقاد پر تبصروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کچھ لوگ اس کے انعقاد کے حق میں ہیں جب کہ کچھ وبا کے باعث اس کو مؤخر کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
'ملک بھر میں تقاریب پر پابندی ہے، پریڈ منسوخ کر دینی چاہیے تھی'
تجزیہ کار اور صحافی نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ وہ پریڈ کے انعقاد کی بھر پور حامی ہیں۔ کیوں کہ پریڈ کے ذریعے مجموعی قومی طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن کرونا کے باعث جس طرح ملک بھر میں تقاریب پر پابندی عائد ہے اسی طرح پریڈ کو منسوخ کر دینا چاہیے تھا۔
نسیم زہرہ نے کہا کہ کرونا کی صورتِ حال پر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حکومت کی بھی اس بارے میں پالیسی بالکل واضح ہے۔ وزیرِ اعظم خود کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ لیکن ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔
'پریڈ کے لیے الگ بجٹ مخصوص ہوتا ہے'
ان کے مطابق یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ پریڈ میں جو بھی شریک ہوں۔ انہیں ویکسین کا انجکشن لگا کر شریک ہونے کی اجازت دی جاتی۔
نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کے جو مسائل ہیں اس کے پیشِ نظر پریڈ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعض لوگ اس حوالے سے اخراجات پر جو تنقید کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کرونا کی ویکسین کا بجٹ پریڈ پر خرچ کر دیا گیا ہے۔ پریڈ کے لیے الگ بجٹ مخصوص ہوتا ہے، جو فوج اپنے اخراجات سے ادا کرتی ہے۔
'پریڈ آئندہ کسی برس بھی کی جا سکتی تھی'
مصنفہ اور تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ایسے میں 23 مارچ کی پریڈ منعقد کرنا ضروری نہیں تھا۔ یہ پریڈ آئندہ کسی برس بہتر حالات میں بھی کی جا سکتی تھی۔
ان کے مطابق تقاضا یہی تھا کہ اس قدر اخراجات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ پاکستان پر حملہ کرنا یا اسے ہڑپ کرنا کسی بھی ملک کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے طاقت کے اظہار کی ضرورت نہیں تھی۔
'پاکستان محفوظ ہے اور سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں'
عائشہ صدیقہ نے کہا کہ پاکستان محفوظ ہے اور سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ معاشی تحفظ ہے۔ پاکستان کو سب سے پہلے اپنی معیشت کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
واضح رہے کہ رواں برس پریڈ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک مہم بھی دیکھنے میں آئی جس میں بعض سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ مشکل معاشی صورتِ حال اور کرونا وائرس کی تیسری لہر کی وجہ سے اربوں روپے کے اخراجات نہیں کرنے چاہیے تھے۔ جب کہ بعض افراد کا کہنا تھا کہ یومِ پاکستان کی پریڈ ملک کی عسکری طاقت اور تاثر بہتر طور پر دکھانے کے لیے بہت ضروری ہے۔
'قومی دن پوری دنیا میں اچھے انداز میں منائے جاتے ہیں'
پریڈ کے حوالے سے تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ قومی دن پوری دنیا میں بہت اچھے انداز میں منائے جاتے ہیں۔ اس قومی دن کے منانے سے پاکستانی قوم میں اتحاد اور اتفاق پیدا ہوتا ہے۔
ان کے مطابق اس قسم کے دن منانے سے آپس میں قومیت کو ابھارنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر صرف پاکستان میں ایسا ہوتا تو اس پر اعتراض کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا دنیا بھر میں کیا جاتا ہے۔ آپ نے پیغام دینا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس منظم کام کرنے کی صلاحیت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سیکیورٹی کے مسائل ہیں وہاں ملٹری پاور بھی دنیا کو دکھائی جاتی ہے لہذا اس صورتحال پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
'کرونا کی صورتِ حال ہے لیکن ایس او پیز کے ساتھ پریڈ ہوئی'
حسن عسکری نے مزید کہا کہ پریڈ سے بین الاقوامی سطح پر نئے اور جدید آلات اور پروفیشنل صلاحیتوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے۔ پاکستان اپنے نئے جہاز اور نئی صلاحتیں دنیا کو دکھاتا ہے۔
انہوں نے کرونا میں پریڈ ہونے کے حوالے سے کہا کہ یہ ملک کے اندر مقامی سیاست ہے۔ کرونا کی صورتِ حال ہے لیکن وہاں ایس او پیز کے ساتھ پریڈ ہوئی۔ اگر ماضی میں دیکھیں تو ضیا الحق کے دور میں پریڈ باقاعدگی سے ہوا کرتی تھی اور اس دور میں اس پریڈ کو نمایاں مقام حاصل ہوا۔ لیکن سابق وزرائے اعظم کے دور میں دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر کئی سال تک پریڈ منسوخ کی جاتی رہی۔
ان کے مطابق اب اگر مجموعی طور پر قومیت کو ابھارنے کے لیے فوجی پریڈ کا انعقاد کیا جا رہا ہے تو یہ ملک کے لیے بہت اچھا ہے۔