رسائی کے لنکس

علیحدگی پسند کشمیری رہنما دہلی میں گرفتاری پیش کریں گے


فائل
فائل

بھارتی قومی تحقیقاتی ادارہ، 'این آئی اے' کشمیر میں تشدد اور دہشت کو بڑھاوا دینے اور بدامنی کو جاری رکھنے کے لئے مبینہ طور پر پاکستان اور دوسرے ممالک سے ''حوالہ یا دیگر غیر قانونی چینلز کے ذریعے'' حاصل کی جانے والی رقوم کے معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے ایک اتحاد نے بُدھ کو یہ اعلان کیا کہ اس کے سرکردہ راہنما سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک اختتامِ ہفتہ نئی دہلی جا کر وہاں بھارت کی قومی تحقیقاتی کے ادارے، نیشنل انوسٹیگیٹنگ ایجنسی (این آئی اے) کے سامنے خود کو گرفتاری کے لئے پیش کریں گے۔

این آئی اے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں تشدد اور دہشت کو بڑھاوا دینے اور بدامنی کو جاری رکھنے کے لئے مبینہ طور پر پاکستان اور دوسرے ممالک سے ''حوالہ یا دیگر غیر قانونی چینلز کے ذریعے'' حاصل کی جانے والی رقوم کے معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں، ادارے نے جون کے مہینے میں باضابطہ مقدمہ درج کیا تھا جس کے بعد وادئ کشمیر، جموں، نئی دہلی اور بھارتی ریاست ہریانہ کے سونی پت اور گڑگاؤں میں چار الگ الگ موقعوں پر چھاپے مارے گئے اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔

جن افراد کو حراست میں لے کر دہلی کی مختلف جیلوں میں بند کردیا گیا ہے ان میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے کئی سرکردہ کارکن، تاجر اور ایک وکیل بھی شامل ہیں؛ جبکہ منگل کو ایک پریس فوٹو گرافر اور ایک اور نوجوان کو سنگبازوں کا سرغنہ ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ تازہ کارروائی میں بُدھ کو سرینگر اور وادئ کشمیر کے دوسرے حصوں میں 11 اور دلی اور گڑگاؤں میں پانچ مقامات پر چھاپے مارے گئے۔

این آئی اے کے ڈائرکٹر جنرل شرد کمار نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ، ''ایسے جوڑ اور رابطے بے نقاب ہوئے ہیں جو ٹیرر فنڈنگ ثابت کرتے ہیں۔ ان کا تعلق حوالہ آپریٹرس، سرمایہ فراہم کرنے والوں اور حد بندی لائین کے آر پار جاری تجارت سے جڑتا ہے۔ اور اب تک کی گئی تحقیقات کی بنیاد پر سرینگر، دہلی اور گڑگاؤں میں چھاپے ڈالے گئے"۔

تاہم، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے قائدین نے الزام عائد کیا ہے کہ این آئی اے کی طرف سے ڈالے گئے چھاپے اور گرفتاریاں سیاسی انتقام اور انہیں بدنام کرنے کی ایک مہم کا حصہ ہیں، تاکہ، بقول اُن کے، ''عالمی سطح پر ان کی اور تحریکِ حریت کی شبیہہ کو بگاڑ دیا جائے'' اور مقامی لوگوں میں بھی ان کے بارے میں ''بدظنی'' پیدا کی جائے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ''نئی دہلی ہر ایسی آواز کو دبانے لے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہی ہے جو کشمیریوں کے حق میں اُٹھ رہی ہے یا ان کے جذبات اور ان کی تمناؤں کی ترجمانی کرتی ہے''۔

سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں ایک نیوز کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے، میر واعظ عمر اور یاسین ملک نے کہا ہے کہ کشمیری سیاسی قیادت اور اس سے جڑے تاجروں، وکلاء، صحافیوں، دانشوروں، سول سوسائٹی ممبران اور سیاسی کارکنوں کو بلا وجہ ہراساں کیا جارہا ہے اور اس کا توڑ کرنے کے لئے وہ اور سید گیلانی 9 ستمبر کو دلی جاکر این آئی اے کے صدر دفاتر پر خود کو گرفتاری کے لیے پیش کریں گے۔

اخباری کانفرنس سے سید گیلانی کو بھی خطاب کرنا تھا؛ لیکن پولیس نے انہیں سرینگر کے حیدر پورہ علاقے میں واقع ان کے گھر سے، جہاں وہ کئی ماہ سے نظر بند ہیں، باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ بعد میں، انہوں نے فون پر نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG