جمعرات کو مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے دارالحکومت سرینگر کے بیشتر حصوں اور جنوبی شہر شوپیان میں ایک مرتبہ پھر کرفیو نافذ کردیا، جبکہ جنوبی وادی کے باقی علاقوں میں سخت حفاظتی پابندیاں عائد کی گئیں۔
اگرچہ ایسی تدابیر جو عہدیداروں کے مطابق احتیاطی نوعیت کی ہوتی ہیں اختیار کرنا اب ایک معمول بن گیا ہے اور متنازع علاقے کی صورتِ حال کے پیش نظر یہ ایک ناگزیر عمل ہے، جمعرات کو حالیہ ہفتوں کے مقابلے میں ان پر نسبتا" زیادہ سختی کے ساتھ عملدرآمد کرایا گیا۔
سرینگر کے پرانے تاریخی شہر میں بُدھ کے روز فوج کے ساتھ ایک مقابلے میں مارے گئے ایک عسکریت پسند کے جلوسِ جنازہ پر حفاظتی دستوں کی طرف سے کی گئی پیلٹ فائرنگ کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ اور پھر اسی علاقے میں مزارِ شہداء واقع ہے جہاں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں نے 13 جولائی 1931 کے شہدا کو خراجِ عقیدت اد کرنے کے لئے ایک جلسہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
حکام نے اس جلسے اور اس طرح کی دوسری تقریبات کو روکنے لے لئے ان جماعتوں کے لیڈروں اور سرکردہ کارکنوں کو اُن کے گھروں میں یا پھر پولیس تھانوں اور جیل خانوں میں نظر بند کر دیا۔ کشمیر کے سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما میر واعظ عمر فاروق نے جب اپنے گھر سے زبردستی باہر آکر مزارِ شہداء کی طرف پیش قدمی شروع کی تو پولیس انہیں گرفتار کرکے لے گئی۔
تاہم، صوبائی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی، مخلوط حکومت میں شامل ان کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سے وابستہ وزرا اور اعلیٰ سول اور پولیس عہدیداروں نے سخت حفاظتی انتظامات کے بیچ مزارِ شہدا پر حاضری دی، شہداء کی قبروں پر پھول چڑھائے اور فاتحہ پڑھی۔ حزبِ اختلاف میں بھارت نواز جماعتوں کے قائدین کو بھی ایسا کرنے کی اجازت دی گئی، جبکہ وزیرِ اعلیٰ کی موجودگی میں رسمی لباس زیبِ تن کئے پولیس اہلکاروں نے شہدا کو سلامی دی۔
اس موقعے پر اپنے مختصر خطاب میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ 13 جولائی 1931 کے دِن 22 کشمیری مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ ریاست میں جمہوریت کے قیام اور اسے خوشحال بنانے کے لئے پیش کیا تھا۔ انہوں نے آپسی بھائی چارے، مذہبی رواداری اور امن و آشتی پر مبنی کشمیریت کو ہر حال میں زندہ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
تاہم، اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ اس ہفتے کے شروع میں مسلمان عسکریت پسندوں اور پولیس کے درمیان ہوئی ایک جھڑپ کے دوران جب ایک مسافر بس زد میں آگئی اور اس میں سوار امرناتھ گھپا کے درشن پر آئے سات ہندو یاتری ہلاک اور اُنیس زخمی ہوئے تھے تو کشمیر کے لوگوں نے مذہب اور سیاسی نظریات سے بالاتر ہوکر اس واقعے پر دُکھ کا اظہار کیا اور اس کی مذمت کی، جس سے یہ ثابت ہوا کی کشمیریت زندہ ہے۔
تقریبات میں پی ڈی پی کی حلیف جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء نے حصہ نہیں لیا، کیونکہ اس کا استدلال ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کا دورِ حکومت غیر منقسم کشمیر کا سنہری دور تھا۔
اقلیتی کشمیری پنڈت فرقے نے جموں میں چھوٹی چھوٹی تقریبات کا انعقاد کیا لیکن مختلف انداز میں اور ایک متضاد سیاسی نظریے کو لیکر۔ ان کا الزام ہے کہ 86 برس پہلے مطلق العنان ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف کشمیری مسلمانوں کی طرف سے شروع کی گئی جدوجہد کے ساتھ ہی اکثریتی فرقے کے ہاتھوں انہیں زچ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں نے ان تمام بیانات، دعوؤں، الزامات اور مفروضوں کو رد کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ 1931 میں 22 کشمیری مسلمانوں نے جموں و کشمیر کی مکمل آزادی کی خاطر اپنی جانیں دیں اور یہ تحریک اب بھی جاری ہے۔