پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان ایک دہائی سے زائد عرصے سے امن و امان اور دیگر سماجی مسائل کا شکار ہے جس کہ وجہ سے حالیہ برسوں میں یہاں دیگر صوبوں سے آکر آباد ہونے والوں کے علاوہ بعض فرقوں اور غیر مسلموں کی ایک قابل ذکر تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی لیکن صوبائی حکام کا دعویٰ ہے کہ بہت سے لوگ اب واپس اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد ہو رہے ہیں۔
قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبے میں مختلف عسکری اور علیحدگی پسند تنظیمیں سرگرم ہیں جن کی آڑ میں بہت سے جرائم پیشہ گروہوں نے بھی یہاں اپنی وارداتیں شروع کر رکھی تھیں۔
حالیہ برسوں میں غیر بلوچ آبادی اور شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے علاوہ، یہاں آباد ہندو اور سکھ برادری کے لوگوں کے ساتھ ساتھ کاروباری و سیاسی شخصیات اور غیر ملکیوں کے اغوا کی وارداتیں عام رہیں جن میں سے اکثر کو بھاری تاوان کے بدلے رہا کیا جاتا۔
امن و امان کی اسی خراب صورتحال کے باعث صدیوں سے یہاں آباد سکھ اور مسیحی برادری کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہوئی جب کہ کئی ہندو خاندانوں کے بھارت منتقل ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ چند برس قبل صوبے سے لوگوں کی نقل مکانی ضروری ہوئی تھی لیکن اب نہ صرف یہ سلسلہ رک گیا ہے بلکہ بہت سے لوگ واپس بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر درانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’2009 سے 2011 تک تقریباً پانچ ہزار لوگوں کی نقل مکانی کی اطلاعات تھیں لیکن اب بہت سے لوگ واپس آ گئے ہیں اور یہ نقل مکانی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ انھیں پتا ہے کہ اب امن و امان کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔‘‘
سابق وزیر اور ہندو برادری کے ایک سرگرم رہنما بسنت لال گلشن کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان کی برادری کے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ اب ختم ہو گیا ہے۔
’’پچھلے دور حکومت میں بہت سے اضلاع سے ہمارے لوگ نقل مکانی کر گئے تھے لیکن اب یہ سلسلہ بالکل رک گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جب سے پاکستانی فوج نے خاص طور پر یہاں کے حالات میں دلچسپی لینی شروع کی ہے تو ہم خود کو پہلے سے محفوظ سمجھتے ہیں۔‘‘
تاہم خاص طور پر صوبے میں آباد شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری کی طرف سے اب بھی اپنی سلامتی سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مزید موثر اقدام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں اس برادری پر خاص طور پر ہلاکت خیز حملوں میں اضافہ دیکھا گیا جب کہ رواں ماہ ہی ایک خودکش حملہ آور نے ہزارہ ٹاؤن میں گھسنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اپنے ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی ایک چوکیدار سے ہونے والی ہاتھا پائی کے دوران جسم سے بندھے بارودی مواد پھٹنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں صوبے کی سکیورٹی فورسز کی انسداد دہشت گردی سے متعلق استعداد کار نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اب پولیس کو فوج نے تربیت فراہم کی ہے جس کے بعد صوبے میں امن و امان کی قابل ذکر بہتری دیکھی جا رہی ہے۔
ان کے بقول شدت پسند اب بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے اکا دکا تشدد کے واقعات کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی سرکوبی کے لیے بھی بھرپور اقدام کیے گئے ہیں جن کے نتائج برآمد ہوں گے۔