رسائی کے لنکس

کراچی کے آسمان سے گزرتی روشنی کس چیز کی تھی؟


کراچی میں ہفتے کی شب ایک کیمرے نے دلچسپ منظر قید کیا۔ یہ منظر تھا آسمان پر سے ایک روشنی کے گولے کے تیزی سے گزرنے کا۔ عام طور پر آسمان پر سے رات کے وقت گزرتے جنگی جہازوں کی روشنی بہت تیزی سے گزرتی ہوئی نظر آتی ہے اور ان سپر سونک جہازوں کی آواز بہت دور سے بھی آ جاتی ہے۔

لیکن روشنی کے ایک بڑے گولے کے گزرنے کا یہ منظر کوئی معمول کی بات نہیں تھی۔ اس منظر کو کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں دیکھا گیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر قیاس آرائیوں کا آغاز ہوگیا۔ کسی کے مطابق جب ایسا ہوا تو دھماکے کی آواز بھی آئی، کسی کا کہنا تھا کہ انہیں لگا کہ کوئی جہاز تباہ ہو گیا ہے۔کسی نے اسے ستارہ ٹوٹنے کا منظر قرار دیا۔

سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بعد کچھ ویڈیوز گردش کررہی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ منظر کیا تھا اور وائرل ہونے والی ویڈیوز کی اصل حقیقت کیا ہے، اس بارے میں وائس آف امریکہ نے ماہرینِ فلکیات کی رائے معلوم کی۔

جامعہ کراچی کے سابق ڈائریکٹر اور انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈپلینٹری ایسٹروفزکس (اسپا) کے پروفیسر ڈاکٹر محمد شاہد قریشی کے مطابق آسمان پر نظر آنے والا یہ گولہ ’میٹیور‘ یا شہاب ثاقب ہے جسے کیمرے نے قید کر لیا۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ یہ منظر پاکستان میں پہلی بار دیکھا گیا ہے۔

اسپا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی کے کراچی کی اسکائی لائن میں نظر آنے والی روشنی میٹیور کی ہی تھی۔

اُن کے بقول ہفتے کی شب دیکھا جانے والا شہاب ثاقب اس لیے واضح تھا کہ اس کا حجم بڑا تھا۔ اس سے قبل 14 دسمبر 2020 میں بھی ایک ایسا ہی منظردیکھا گیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ میٹیور خلا میں پتھر کی شکل میں ہوتے ہیں اور انہیں خلا کا ملبہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ زمین کے کرہ فضائی میں ہوا کی رگڑ کی وجہ سے ان میں آگ لگ جاتی ہے اور یہ زمین کی کشش ثقل کے باعث تیزی سے زمین کی طرف آتے ہیں۔

اس واقعے اور اس پر سامنے آنے والی قیاس آرائیوں کے بعد سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ میٹیورز جن کا ان دو دنوں سے بہت چرچا ہے وہ درحقیقت ہوتا کیا ہے؟

میٹیورز کیا ہیں؟

ڈاکٹر شاہد قریشی کے مطابق ہمارے سولر سسٹم کے اردگرد خلا ہے۔ ہماری زمین اسی خلا میں سورج کے گرد اپنے مدار میں گھوم رہی ہے۔ اس خلا میں کے مختلف حصوں میں میٹیورز پائے جاتے ہیں جو کہ ایک سینٹی میٹر سے لے کر کئی میٹر حجم رک کے ہو سکتے ہیں۔ جب زمین اپنے مدار سے سورج کے گرد گھومتے ہوئے ان ایسٹیرائیڈز ک (asteroids)ے قریب سے گزرتی ہے تو زمین اپنی کشش سے ان ایسٹیرائیڈز کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔

ڈاکٹر شاہد قریشی کے مطابق اردو میں asteroids کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔ یہ وہ چھوٹے بڑے اجرام (پتھر اور چٹانیں) جو مریخ اور مشتری کے درمیان سورج کے گرد گردش کرتے ہیں البتہ یہ زمین کے قریب بھی ہوتے ہیں۔

اُن کے بقول میٹیورز وہ اجرام ہیں جو زمین کی کشش سے زمین کی فضا میں داخل ہو کر ہوا کی رگڑ سے جل اٹھتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر خاک بن کر فضا میں ہی بکھر جاتے ہیں۔

اس طرح وہ آسمان کے جس بھی حصے میں پائے جاتے ہیں وہاں سے بہت سارے میٹیورز ایک رات میں دیکھے جاسکتے ہیں جن کو ہم میٹیورز شاور کہتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد کے مطابق ایک رات میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں میٹیورز دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب کوئی ایسٹرائیڈ چھوٹا یا بڑا زمین کی فضا میں داخل ہوتا ہے تو ہوا کی رگڑ سے وہ جل اٹھتا ہے۔ جب وہ جلتا ہے تب ہی اس کا نظر آنا ممکن ہوتا ہے۔ عام طور پر ایک میٹیور بہت تیزی سے زمین کی فضا سے گزرنے کے دوران جل کر راکھ بن جاتا ہے۔ میٹیورز کی اکثریت زمین تک نہیں پہنچ پاتی۔ صرف وہی زمین پر گرتے ہیں جن کا حجم اتنا بڑا ہوتا ہے کہ وہ پورا جل نہیں پاتا اور اس کا کچھ حصہ زمین پر گر جاتا ہے۔

کیا میٹیورز کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے؟

ڈاکٹر شاہد قریشی کے مطابق میٹیورز کے منظر کو عام کیمرہ محفوظ کرسکتا ہے لیکن یہ اتفاقًا ہوسکتا ہے۔ اس کی پلاننگ نہیں کی جاسکتی۔ ایسا ممکن ہے کہ آپ کیمرے سے آسمان پر کچھ دیکھ رہے ہیں اور آپ کو ایسا منظر مل جائے۔ ہفتے کی شب کراچی میں جو شہاب ثاقب نظر آیا اور اس کی تصویر لی گئی وہ غیر ارادی طور پر بن گئی۔

ماہر فلکیا ت جو میٹیورز شاور کا پیچھا کرتے رہتے ہیں انہیں یہ معلوم ہوتا کہ کس وقت کس دن میٹیور شاور اپنے عروج پر ہوگا تو وہ اپنے کیمرے اس جانب فکس کر کے انتظار کرتے ہیں کہ اس لمحے کو کیمرے میں قید کرلیں۔

کیا میٹیورز زمین کو نقصان پہنچا سکتے ہیں؟

ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق اکثر میٹیورز زمین کی فضا میں ہی جل کر راکھ ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے سائز چھوٹے ہوتے ہیں۔ بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی میٹیور اتنا بڑا ہو کہ اس طرح نظر آجائے۔

اُن کے بقول آج سے آٹھ سال قبل روس میں نظر آنے والا میٹیور سائز میں نہ صرف بڑا تھا بلکہ اس کے سبب درجنوں لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں تھی۔ کراچی اور سندھ میں دیکھا جانے والاحالیہ میٹیوز اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کہ عموماً جنوری میں میٹیور شاور نہیں ہوتا ۔ عام طور پر یہ دسمبر کے مہینے میں نظر آتے ہیں۔

چودہ دسمبر 2020 میں ہی اسپا کے ایک فیکلٹی ممبر ابصار احمد نے اپنے کیمرے کی مدد سے میٹیور شاور کو ریکارڈ کیا تھا۔ ان کے مطابق شہابِ ثاقب کی اس برسات یا میٹیور شاور کو دور بین کی مدد سے دیکھا اور کیمرے کی مدد سے ریکارڈ کیا جاسکتا ہے۔

کیا میٹیورز کی آواز ہوتی ہے؟

ڈاکٹر شاہد کے مطابق عمومی طور پر میٹیورز کے گزرتے وقت کوئی آواز نہیں ہوتی۔ یہ کہنا کہ ان کے گزرتے ہوئے دھماکے کی آواز آئی ایسا اب تک کی تحقیق میں سامنے نہیں آیا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ کچھ میٹیورز کم روشن ہوتے ہیں اور پلک جھپکتے ہی غائب ہو جاتے ہیں اور اسے ایک عام آدمی نوٹس نہیں کر پاتا۔ ان کی روشنی کی کمی کی وجہ ان کے سائز میں کمی یا وہ فاصلے کی وجہ سے بھی بہت چھوٹا دکھائی دے سکتا ہے۔ کچھ میٹیورز زیادہ روشن ہوتے ہیں جیسا کہ ہفتے کی شب کو دیکھا گیا۔ اس کے روشن ہونے کی ایک وجہ اس کا بڑا حجم ہوسکتا ہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دیکھنے والوں کے بہت قریب سے گزرا ہو۔

پاکستان میں میٹیورز کے بارے میں لوگ کتنا علم رکھتے ہیں؟

دنیا بھر میں لوگ فلکیات سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور ایسے مناظر اور واقعات کو رپورٹ کیا جا تا ہے۔ کیا ایسی دلچسپی پاکستانیوں کو بھی ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہد کا کہنا ہے کہ پہلے ایسا تھا کہ پاکستان میں اس بارے میں لوگوں کی اتنی دلچسپی نہیں تھی لیکن گزشتہ 10 سے 15 برسوں میں اب اس رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لوگ اب نہ صرف فلک بینی میں دلچسپی لیتے ہیں بلکہ اب تو لوگوں کے پاس اپنے ٹیلی اسکوپ بھی ہوتے ہیں جس سے وہ مشاہدہ کرتے ہیں۔ پھر بین الاقوامی سطح پر جو معلومات سوشل میڈیا کے ذریعے مل رہی ہے اس کی وجہ سے بھی اب لوگ اس بارے میں خاصی معلومات رکھتے ہیں کہ میٹیورز کیا ہیں اور کیسے ہوتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG