رسائی کے لنکس

کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پھر توسیع ملنے کا امکان ہے؟


پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کی مدتِ ملازمت رواں ماہ کے آخر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ خود بھی اس عہدے سے سبک دوش ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں، تاہم پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں اُن کی مدتِ ملازمت میں ایک بار پھر توسیع کی قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا سوال، ملین ڈالر کا ہے۔

پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ اس وقت ملکی سیاست کا محور بنا ہوا ہے اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت اُن پر حملے کے باوجود اسلام آباد کی جانب پھر مارچ شروع کر رہی ہے۔ سیاسی ماہرین عمران خان کے اس لانگ مارچ کو آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر دباؤ بڑھانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

دوسری جانب حکومت بھی فوج کے نئے سربراہ کے تقرر کے حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے ۔وزیرِ اعظم شہباز شریف کئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی آئین کے مطابق ہو گی۔

کچھ عرصہ قبل وزیرِ اعظم شہبازشریف نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے انہیں مل کر آرمی چیف لگانے کا پیغام بھیجا تھا البتہ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

عمران خان نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی بھی آرمی چیف مقرر کر دیا جائے۔

تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع ملنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ سوال، ملین ڈالر کا سوال ہے۔

آرمی چیف کا عہدہ پاکستان فوج کی قیادت کا ایک انتظامی عہدہ ہے البتہ ماضی میں سیاست میں فوج کی مداخلت کے باعث اس عہدے پر تقرری کو بہت اہمیت دی جاتی رہی ہے۔

ماضی میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے چار بار اس عہدے پر افسران کا تقرر کیا۔ البتہ مبصرین کہتے ہیں کہ ان کی بیشتر تعیناتیوں میں انہیں خود نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

جنرل عاصم منیر یا جنرل فیض حمید کیوں زیرِ بحث

دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہہ اس وقت جو صورتِ حال درپیش ہے، وہ عمران خان کی جانب سے ایک جنرل کو اہمیت دینے کی وجہ سے ہے، جنہیں مبینہ طور پر عمران خان آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔ اس وقت پاکستان کی تمام سیاست اسی تعیناتی کے گرد گھوم رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں صرف پیپلز پارٹی کو اس بات کی سمجھ آئی ہے کہ اس تعیناتی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اُن کے بقول اصولی طور پر اس تعیناتی سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے لیکن مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ایسے شخص کا تقرر کرنا چاہتی ہیں، جو ان کو تنگ نہ کرے یا پھر مخالف سیاسی جماعت کو ان کے لیے ہینڈل کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت جو مختلف نام سامنے آ رہے ہیں، ان میں جنرل عاصم منیر کا نام سب سے زیادہ اس وجہ سے پھیلا ہوا کہ ان کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف ہیں جب کہ فیض حمید کا نام بھی اس وجہ سے سامنے آتا ہے کہ وہ عمران خان کے پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فوج ایک عرصے سے سیاسی کردار میں ہے، اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان پسندیدہ فرد کے آرمی چیف آنے سے انہیں فائدہ ہوگا۔

فوج کے سربراہ کی تعیناتی ایک سرکاری افسر کا تقرر

دفاعی تجزیہ کار فوج کے سابق بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کے مطابق جب سیاست سے اصول نکل جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس وقت سماجی طور پر جس طرح کی تقسیم ہے، اس میں آرمی چیف کی تعیناتی پر ہی سب کچھ منحصر ہو تو کسی بھی معاشرے میں ایسے ہی مسائل سامنے آتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے مزید کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ادارہ ہے۔ اس کے سربراہ کی تعیناتی کو ایک عام سرکاری افسر کے تقرر کے انداز میں دیکھا جانا چاہیے۔

عائشہ صدیقہ نے آرمی کے سربراہ کے تقرر پر موجودہ صورتِ حال کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ صرف ایک آرمی چیف کی تعیناتی کو بنیاد بنا کر پورے ملک میں ایک ہیجان برپا ہے اور سب اسی تعیناتی کی وجہ سے سب کام روکے بیٹھے ہیں۔

سیاست میں کردار

ان کے مطابق یہ صورتِ حال اس وقت ختم ہو گی، جب فریقین اس بات کو تسلیم کر لیں گے کہ فوج کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ سیاست میں کردار ادا کرے۔ جب اس بات کو مان لیا جائے گا تو پھر کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

سابق وزیرِ اعظم کے بیان کے حوالے سے عائشہ صدیقہ نے کہا کہ عمران خان نے بھی کہا ہے کہ انہیں کسی بھی آرمی چیف کے آنے سے فرق نہیں پڑتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیگر افسران کو پیغام دے رہے ہیں کہ مجھے کسی سے کوئی مسئلہ نہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ میرے اندازے میں انہیں مزید توسیع دینا ممکن نہیں۔

مدتِ ملازمت میں توسیع

ان کے مطابق عمران خان اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی جائے اور اگلی حکومت نیا آرمی چیف تعینات کرے البتہ ایسا ممکن نہیں کیوں کہ موجودہ وفاقی حکومت آئندہ انتخابات کے انتظار تک اس معاملے کو لٹکانا نہیں چاہتی۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے بریگیڈئیر (ر) سید نذیر کا کہنا تھا کہ اس وقت جو صورتِ حال ہے، اس میں ایسا ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے موجودہ آرمی چیف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا آخری ایک برس بہت متنازع رہا ہے اور اس کے بعد ادارے کو جس طرح نشانہ بنایا گیا، اس میں ایسا ممکن نظر نہیں آرہا۔

انہوں نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ رواں ماہ ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ادارہ بھی مزید توسیع کو برداشت نہیں کرسکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت کوئی ایسی جنگ نہیں چل رہی کہ آرمی چیف کو مزید توسیع دی جائے، اگر اس کے باوجود ایسا کیا گیا تو یہ ادارہ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

قبل از وقت نئے سربراہ کا اعلان

پاکستان کی فوج کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارے کے لیے بھی بہت مشکل ہے کہ بہت سے قابل جنرلز کو چھوڑ کر انہیں مزید وقت دیا جائے ۔

آرمی چیف کی تعیناتی کا اعلان آخری ایک سے دو دن میں کیے جانے کے حوالے سے بریگڈئیر سید نذیر نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ وقت سے پہلے نام کا اعلان کر دیا جائے۔

پہلے کی مثالیں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں جنرل مرزا اسلم بیگ کا اعلان تین ماہ قبل کیا گیا تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا فیصلہ بھی تین ماہ قبل کر لیا گیا تھا۔

ان کے بقول اسی طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کا بھی پہلے ہی اعلان کیا گیا تھا۔ اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن اس میں تاخیر انتظامی معاملہ نہیں، شاید سیاسی فیصلہ ہوسکتا ہے البتہ اس کے باوجود امکان ہے کہ رواں ہفتہ کے اختتام تک سمری بھجوائی جائے گی۔

سپریم کورٹ کے وکیل اظہر صدیق ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن آٹھ بی کے مطابق آرمی چیف کے عہدہ پر موجود شخص کو 64 سال کی عمر تک توسیع دی جاسکتی ہے، اس میں کسی بھی جگہ ایک یا ایک سے زائد کا ذکر موجود نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ آئندہ سال 64 سال کی عمر کو پہنچیں گے اور اگر حکومت چاہے تو وہ انہیں ایک مخصوص مدت یا پوری ٹرم کے لیے توسیع دے سکتی ہے۔

کمانڈ میں تبدیلی کے اثرات

بریگیڈئیر (ر)سید نذیر کا کہنا تھا کہ آرمی میں یہ معمول ہوتا ہے کہ ایک افسر کی کہیں اور تعیناتی ہو جاتی ہے یا پھر وہ ریٹائر ہونے والا ہوتا ہے، تو اگلے افسر کا اعلان کر دیا جاتا ہے لیکن اس سے کمانڈ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ان کے مطابق فوج کے ماحول اور روایات میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ نئے افسر کا اعلان ہونے پر سب نئے والے کی طرف دیکھنے لگ جائیں اور جانے والے کو نظر انداز کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ آرمی میں کمان کی چھڑی کی منتقلی تک سب اسی آرمی چیف کی طرف دیکھتے ہیں جس کے ہاتھ میں چھڑی ہوتی ہے۔ جیسے ہی کمان تبدیل ہوتی ہے، اس کے بعد نئے آرمی چیف کے احکامات پر عمل درآمد شروع ہو جاتا ہے۔

ان کا ایک بار پھر یہی کہنا تھا کہ فوج میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ کمان میں تبدیلی سے کوئی فرق پڑے۔

XS
SM
MD
LG