رسائی کے لنکس

نئے آرمی چیف کے لیے کوئی نام فائنل نہیں، جنرل باجوہ کے فیصلے سے ابہام دور ہوگا: وزیرِ دفاع


پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے لیے وزیرِ اعظم پاکستان کے پاس پانچ سینئر ترین جنرلز کے نام آتے ہیں۔ لیکن ماضی میں یہ مثالیں بھی موجود رہی ہیں کہ اس عہدے پر الگ سے بھی تقرری ہوتی رہی ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے نومبر میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کے عندیے پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اس سے آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر حالیہ عرصے میں پیدا ہونے والا ابہام ختم ہو جائے گا۔

اسلام آباد میں بدھ کو نیوز کانفرنس کے دوران خواجہ آصف نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل رواں ماہ کے اواخر یا آئندہ ماہ کے آغاز میں شروع ہو جائے گا۔ لیکن تاحال ابھی اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

وزیرِ دفاع کا نئے آرمی چیف کی تقرری پر یہ بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب پاکستان کے سرکاری ٹی وی پی ٹی وی نے بدھ کو رپورٹ کیا تھا کہ امریکہ کے دورے پر موجود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واشنگٹن ڈی سی میں غیر رسمی گفتگو کے دوران اپنی مدتِ ملازمت مکمل ہونے پر سبکدوش ہونے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت رواں برس نومبر کے آخر میں ختم ہو رہی ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت رواں برس نومبر کے آخر میں ختم ہو رہی ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران وزیرِ دفاع سے جب نئے آرمی چیف کے تقرر سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا "پاکستان میں یہی روایت ہے کہ پانچ سینئر ترین جنرلز میں سے وزیرِ اعظم کسی ایک کا بطور آرمی چیف انتخاب کرتے ہیں، لیکن ماضی میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ اس سے ہٹ کر بھی آرمی چیف کی تعیناتی کی گئی۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اُن کی ذاتی رائے ہے کہ کوئی بھی تھری سٹار جنرل آرمی چیف کے عہدے کے لیے اہل ہوتا۔ لیکن جن ناموں کی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) اور وزارتِ دفاع کی جانب سے سفارش کی جاتی ہے, ان کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ نام مختلف مراحل سے گزر کر سامنے آتے ہیں، تاہم پھر بھی حتمی فیصلے کا اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ہی ہوتا ہے۔

وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کے دور میں سبکدوش ہونے والے فوج کے سربراہ کو وقت دیا جاتا تھا، تاکہ وہ الوداعی ملاقاتیں کر سکیں۔

'مسلح افواج خود کو سیاست سے دور کر چکی'

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کی بری فوج کے سربراہ نے واشنگٹن ڈی سی میں غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا کہ مسلح افواج خود کو سیاست سے دور کر چکیں اور دور ہی رہنا چاہتی ہیں۔

جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ مضبوط معیشت کے بغیر سفارت کاری کامیاب نہیں ہو سکتی اور اگر معیشت کمزور ہو گی تو قوم اپنے اہداف بھی حاصل نہیں کر سکے گی۔

جنرل باجوہ اعلیٰ سطح کے فوجی وفد کے ہمراہ چھ روزہ سرکاری دورے پر امریکہ میں موجود ہیں جہاں ان کی امریکہ کے سینئر حکام سے ملاقاتیں جاری ہیں۔ اس دورے کو موجودہ حالات میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ حالیہ عرصے میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپنے حالیہ انٹرویوز میں یہ کہتے رہے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی فوری انتخابات کےبعد بننے والی نئی حکومت کو کرنی چاہیے۔ عمران خان کا مؤقف رہا ہے کہ آئینی گنجائش نکلتی ہے تو اس وقت تک موجودہ آرمی چیف اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔

اس معاملے پر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان لفظی نوک جھونک کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

خواجہ آصف کا اپنی پریس کانفرنس میں مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو صرف نومبر کی فکر ہے۔ کیوں کہ اُنہیں لگتا تھا کہ نہ صرف اپنی حکومت کی پہلی مدت پوری کریں گے بلکہ اگلے پانچ سال بھی وہی اقتدار میں رہیں گے۔

خواجہ آصف کے بقول عمران خان کی بیرونی سازش کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ عمران خان جلسوں میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں، لیکن اندرونِ خانہ اُن کے پاؤں پڑ جاتے ہیں۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان نے صدرِ پاکستان کے ذریعے فوجی قیادت کو پیغام بھجوایا اور ایوانِ صدر میں ہی بیٹھ کر فوجی قیادت کے سامنے ہاتھ جوڑے۔

خواجہ آصف کی نیوز کانفرنس پر ردِعمل دیتے ہوئے تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیرِ دفاع نے کبھی کشمیر یا پاکستان کے دفاع پر بات نہیں کی، بلکہ اُنہیں صرف عمران خان فوبیا ہے۔

XS
SM
MD
LG