رسائی کے لنکس

ایران مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی مزید قیمت ادا کرے گا، امریکہ


21 ستمبر، 2022 کو تہران میں ایران کی "اخلاقی پولیس" کی تحویل میں رہتے ہوئے مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج کے دوران مظاہرین آگ لگا رہے ہیں۔ (مغربی ایشیا نیوز ایجنسی بذریعہ رائٹرز)
21 ستمبر، 2022 کو تہران میں ایران کی "اخلاقی پولیس" کی تحویل میں رہتے ہوئے مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج کے دوران مظاہرین آگ لگا رہے ہیں۔ (مغربی ایشیا نیوز ایجنسی بذریعہ رائٹرز)

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کو کہا کہ وہ نوجوان ایرانی خاتون کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے والےمظاہرین پر حملے کرنے کی بنا پر تہران پر اس ہفتے "مزید قیمت عائد" کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

انہوں نے بائیس سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے والی ایرانی خواتین کے ساتھ امریکہ کی یکجہتی کا اعادہ کیا۔

تاہم صدر بائیڈن نے ٹوئٹر پوسٹ میں یہ واضح نہیں کیا کہ امریکہ تہران حکومت کے خلاف کیا کارروائی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ ایرانی خواتین اور ایرانی شہریوں کے ساتھ کھڑا ہے جو اپنی بہادری سے دنیا کو متاثر کر رہے ہیں۔

" ہم ایرانیوں کے احتجاج کی آزادی کے حقوق کی حمایت جاری رکھیں گے"۔

ایران کی اخلاقی پولیس نے گزشتہ ماہ مہسا امینی کو بالوں کو حجاب سے مناسب طریقے سے نہ ڈھانپنے کی پاداش میں حراست میں لیا تھا جس کے بعد ، ایرانی حکام دعوی کرتے ہیں کہ دل کا دورہ پڑنے سے ایک اسپتال میں ان کی موت واقع ہوئی۔

ایک روز قبل بھی وائٹ ہاؤس نے احتجاج کرنے والی ایرانی خواتین کے خلاف تہران کی حکومت کے پر تشدد کریک ڈاون کی مذمت کی تھی۔

بائیڈن کی پریس سیکریٹری کیرین ژاں پیئر نے پیر کے روز صحافیوں کو بتایا، "ہم سیکیورٹی حکام کی جانب سے یونیورسٹی کے طلباء کے پرامن احتجاج کےجواب میں تشدد اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی رپورٹوں پر پریشان ہیں"۔

ترجمان نے کہا کہ ایران میں یونیورسٹی کے طلباء امینی کی موت پر"صحیح طور پر مشتعل" ہیں۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ مظاہرین کی گرفتاریاں اس قسم کے واقعات ہیں جو ایران میں نوجوانوں کو ملک چھوڑنے اور کسی دوسری جگہ وقار اور مواقع کی تلاش پر مجبور کرتے ہیں۔

ادھر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے دعویٰ کیا ہے کہ امینی کی موت کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے "عام ایرانیوں" کا کام نہیں۔ انہوں نے امریکہ اور اسرائیل پر مظاہروں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگایا ہے۔

ایران احتجاج: کیا اس بارایرانی حکومت خطرے میں ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:25 0:00

ایران میں ہونے والے مظاہرے اب تیسرے ہفتے میں داخل ہوگئے ہیں۔ مظاہرین کو پولیس اور سیکورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

خبر رساں ادارے "ایسوسی ایٹڈ پریس" کے مرتب کردہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مظاہروں میں کم از کم 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 1,500 گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ کم از کم 130 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

خامنہ ای نے کہا کہ امینی کی موت ایک "افسوسناک واقعہ" ہے جس نے ان کا دل توڑ دیا ہے۔

یاد رہے کہ اخلاقی پولیس نے امینی کومبینہ طور پر لباس کے سخت ضابطوں پر عمل نہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ حکام کے مطابق تین دن کوما میں رہنے کے بعد وہ اسپتال میں انتقال کر گئیں۔حکومت نے دعویٰ کیا کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔

لیکن امینی کے خاندان نے اس حکومتی بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امینی کبھی بھی دل کی کسی پیچیدگی میں مبتلا نہیں تھیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ امینی کو حراست کے دوران مارا پیٹا گیا تھا اور وہ اس کی موت کے لئے جوابدہی چاہتے ہیں۔

امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امینی کے زندہ نہ رہنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ ایک سفاک حکومت نے ان کی جان لے لی۔ انہوں نے کہا کہ امینی کی جان ان فیصلوں کی وجہ سے لی گئی جو خود ان ہی کو کرنا چاہیے تھے، یعنی وہ کیا پہنیں گی اور کیا نہیں پہنیں گی۔

اس خبر میں شامل کچھ مواد اے ایف پی، ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG