رسائی کے لنکس

میچ فکسنگ کی کہانی، مشکوک میچز کی زبانی


نوے کی دہائی میں ایک دو نہیں بلکہ کئی میچز ایسے کھیلے گئے جس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی غیر معیاری سے بھی نیچے رہی تھی۔ (فائل فوٹو)
نوے کی دہائی میں ایک دو نہیں بلکہ کئی میچز ایسے کھیلے گئے جس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی غیر معیاری سے بھی نیچے رہی تھی۔ (فائل فوٹو)

نوے کی دہائی کو اگر پاکستان کرکٹ کی سب سے کامیاب دہائی کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ 1992 کا ورلڈ کپ ہو یا 1996 میں کھیلا گیا تین ملکی ورلڈ سیریز ٹورنامنٹ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے دنیا بھر میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے۔

یہی وہ وقت تھا جب میچ فکسنگ نے پاکستان کرکٹ کو دیمک کی طرح چاٹ لیا تھا۔ اُس زمانے میں ایک دو نہیں بلکہ کئی میچز ایسے بھی کھیلے گئے جس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی غیر معیاری سے بھی نیچے رہی۔

ان دنوں 1994 میں کھیلے گئے ایسے ہی ایک میچ کا ذکر ہو رہا ہے جس میں آسٹریلیا نے پاکستان کو 28 رنز سے شکست دی تھی۔

میچ میں سعید انور اور باسط علی سمیت کئی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر لوگوں نے انگلیاں اٹھائی تھیں لیکن ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے یہ میچ ایک شکست سے زیادہ کچھ نہ رہا تھا۔

اسی دہائی کے چند مشکوک میچز پر نظر ڈالتے ہیں جس میں میچ پاکستان کبھی جیتا کبھی ہارا۔ ان میچز کے حیران کن نتائج کی وجہ سے شائقین کرکٹ کو یہ مقابلے آج بھی یاد ہیں۔

یہ وہی میچز ہیں جو ان دنوں موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں اور بعض سابق کرکٹرز ان میں سے بعض میچز کو مشکوک قرار دے رہے ہیں۔

سنگر کپ (کولمبو، ستمبر 1994)

سنگر کپ کے دوسرے میچ میں ایک طرف اس وقت کی عالمی چیمپئن ٹیم پاکستان تھی تو دوسری جانب اسٹارز سے بھری آسٹریلوی ٹیم۔ پاکستانی ٹیم کے کپتان سلیم ملک نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کو ترجیح دی۔

وسیم اکرم اور مشتاق احمد کی تباہ کن بالنگ کے سامنے آسٹریلوی ٹیم صرف سات وکٹ کے نقصان پر 179 رنز ہی بنا سکی۔ ہدف کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی توقعات کے برعکس رہی۔

سعید انور نے میچ میں 46 رنز تو بنائے لیکن رنر کی اجازت ہونے کے باوجود وہ ایک بار فیلڈ چھوڑ کر گئے، جس سے پاکستانی ٹیم کو شدید دھچکا لگا۔ 43 رنز کے انفرادی اسکور پر انہوں نے کریمپس کی وجہ سے باہر جانے کو ترجیح دی اور واپس آ کر اپنے اسکور میں صرف تین رنز کا اضافہ کر سکے۔

اسی طرح انضمام الحق نے 69 گیندوں پر صرف 29 رنز اور کپتان سلیم ملک نے 51 گیندوں پر صرف 22 رنز بنا کر میچ پر پاکستان کی گرفت کو مزید کمزور کیا۔ آصف مجتبیٰ انجری کی وجہ سے بیٹنگ نہ کر سکے۔

گلین میک گراتھ کی گیند پر وسیم اکرم کے بولڈ ہونے سے زیادہ باسط علی کے آؤٹ ہونے پر شائقین کو غصہ آیا۔ انہوں نے 13 گیندوں کا سامنا کیا لیکن کوئی رن نہیں بنایا اور شین وارن کے ہاتھوں انہی کی بال پر کیچ آؤٹ ہوئے۔

پاکستان ٹیم 180 رنز کے تعاقب میں 9 وکٹ پر صرف 151 رنز ہی بنا سکی۔

کراچی ٹیسٹ (ستمبر-اکتوبر 1994)

سنگر کپ کے فائنل میں تو نہ پاکستان پہنچا اور نہ ہی آسٹریلیا نے جگہ بنائی۔ سیریز کے فوراً بعد آسٹریلوی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ یہ وہی دورہ تھا جس میں آسٹریلوی کھلاڑی شین وارن، مارک وا اور ٹم مے نے مبینہ طور پر سلیم ملک پر الزام لگایا کہ انہوں نے خراب کارکردگی دکھانے کے لیے اُنہیں مالی پیشکش کی تھی۔

لیکن پہلے میچ کے نتیجے سے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے میچ یا تو قسمت کی مہربانی سے جیتا یا این ہیلی کی نادانی سے۔ 314 رنز کے تعاقب میں میزبان ٹیم نے آخری دن کا آغاز تین وکٹ کے نقصان پر 155 رنز سے کیا۔ یکے بعد دیگرے وکٹیں گر جانے کے باعث میچ میں آسٹریلیا کی پوزیشن مضبوط ہو گئی تھی۔

کراچی ٹیسٹ کے بعد آسٹریلوی کھلاڑی شین وارن، مارک وا اور ٹم مے نے سلیم ملک پر میچ فکسنگ کا الزام لگایا تھا۔
کراچی ٹیسٹ کے بعد آسٹریلوی کھلاڑی شین وارن، مارک وا اور ٹم مے نے سلیم ملک پر میچ فکسنگ کا الزام لگایا تھا۔

جب نمبر 11 بیٹسمین مشتاق احمد نے کریز پر انضمام الحق کو جوائن کیا تب بھی پاکستان کو جیت کے لیے مزید 57 رنز درکار تھے، ایسے میں دونوں کھلاڑیوں نے زبردست بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف پانچ وکٹیں حاصل کرنے والے شین وارن کو مزید وکٹیں نہ لینے دیں، بلکہ پاکستان کو جیت سے ہمکنار بھی کروایا۔

انضمام الحق کے 58 ناٹ آؤٹ اور مشتاق احمد کے ناقابل شکست 20 رنز نے پاکستان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ میچ کے آخری لمحات میں این ہیلی جیسے مستند وکٹ کیپر کا ایک آسان اسٹمپنگ چھوڑنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

کہیں سلیم ملک کی پیشکش میں کوئی چوتھا کھلاڑی تو شامل نہیں تھا؟ اس بات کا جواب یا تو این ہیلی دے سکتے ہیں یا سلیم ملک خود۔

ہرارے ٹیسٹ (جنوری، فروری 1995)

جس زمانے میں سلیم ملک نے پاکستان ٹیم کی قیادت کی، اس دوران پاکستان ٹیم نے کئی فتوحات اپنے نام کیں۔ ان کی شکستوں کا تناسب جتنا کم تھا اتنا ہی حیران کن بھی۔

جنوری 1995 میں پاکستان ٹیم نے زمبابوے کا دورہ کیا جہاں پہلے ٹیسٹ میں ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سیریز کے باقی دونوں میچز جیت کر کپتان سلیم ملک نے سیریز تو اپنے نام کر لی لیکن پہلے میچ میں شکست کو شائقین کرکٹ آج تک نہیں بھلا سکے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس سے پہلے زمبابوے کی ٹیم نے کبھی کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیتا تھا اور ایک ایسی ٹیم نے پاکستان جیسی مضبوط سائیڈ کو ایک اننگز اور 64 رنز سے شکست دی۔ نہ صرف گرانٹ فلاور نے 201 ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیلی، بلکہ ان کے بڑے بھائی اینڈی فلاور اور گائے ویٹل نے سنچریاں بھی اسکور کیں۔

میچ میں پاکستانی بالرز صرف چار کھلاڑیوں کو ہی آؤٹ کرسکے جب کہ ایک ہی باری میں میزبان ٹیم نے 544 رنز کا پہاڑ جیسا اسکور کھڑا کیا۔ پہلی اننگز میں گرین شرٹس نے 322 رنز بنائے جس کے بعد انہیں فالو آن کا سامنا کرنا پڑا، دوسری اننگز میں ٹیم کی کارکردگی مایوس کن رہی اور پوری ٹیم 158 رنز ہی بنا سکی۔

پاکستان بمقابلہ بھارت (ورلڈ کپ 96)

ہم بھول گئے ہر بات، مگر یہ میچ نہیں بھولے

اگر ورلڈ کپ 1996 کے اس کوارٹر فائنل کے بارے میں شاعر شعر کہتا تو کچھ یوں ہی کہتا۔

کپتان وسیم اکرم کا اتنے اہم میچ سے قبل باہر بیٹھ جانا، جاوید میانداد کی جگہ ناتجربہ کار اور غصے کے تیز عامر سہیل سے کپتانی کرانا۔ آخری اوورز میں پاکستانی بالرز کی پٹائی اور انضمام الحق اور اعجاز احمد کی ناقص کارکردگی۔ یہ تمام باتیں آج 24 سال گزرنے کے باوجود بھی لوگوں کو یاد ہیں۔

بھارتی ٹیم نے 42ویں اوور میں 200 کا ہندسہ عبور کیا تھا۔ تب تک میچ پاکستان کی گرفت میں تھا لیکن اجے جڈیجا نے وقار یونس اور عاقب جاوید کے سامنے آخری اوورز میں ایسے بیٹنگ کی جیسے وہ گلی محلے کے بالرز ہوں۔ جواب میں پاکستان نے 288 رنز کا تعاقب بہترین انداز میں کیا۔ صرف 10 اوورز میں 84 رنز بنالیے۔

پہلے سعید انور 32 گیندوں پر 48 رنز بناکر آؤٹ ہوئے اور اس کے بعد جارح مزاج کپتان کی جارح مزاجی اُنہیں لے ڈوبی۔ نہ عامر سہیل باؤنڈری مارنے کے بعد وینکٹیش پرساد کو اشارہ کرتے اور نہ ہی پرساد انہیں اگلی گیند پر واپس پویلین بھیجتے۔

ایسے جارحانہ آغاز کے بعد اعجاز احمد اور انضمام الحق کا 23 اور 20 گیندوں پر 12، 12 رنز بنا کر آؤٹ ہونا بھی حیران کن تھا۔

کلکتہ کے ہیرو سلیم ملک اور اپنا آخری میچ کھیلنے والے جاوید میانداد نے 38، 38 رنز بناکر ٹیم کو سہارا دیا۔ لیکن جب ایک کپتان مبینہ انجری کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہو اور دوسرا اپنے غصے کی وجہ سے پویلین میں، تو اس ٹیم کا کوارٹر فائنل جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔

پاکستان ٹیم 39 رنز سے شکست کے بعد ایونٹ سے باہر ہوئی لیکن شائقین کرکٹ آج تک اس شکست کو دل و دماغ سے نہیں نکال سکے۔

پاکستان بمقابلہ انگلینڈ (ستمبر 1996)

پاکستان کرکٹ ٹیم نے 1996 میں انگلینڈ کا دورہ کیا اور ٹیسٹ سیریز میں کامیابی اپنے نام کی۔ ون ڈے سیریز کے پہلے دو میچز میں انگلینڈ نے کامیابی حاصل کی اور سیریز وائٹ واش کے لیے انہیں صرف ایک جیت درکار تھی۔

تیسرے میچ میں پاکستان نے نئے کھلاڑیوں شاہد انور اور شاہد نذیر کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔

نک نائٹ کی مسلسل دوسری سنچری کی وجہ سے انگلینڈ نے مقررہ 50 اوورز میں 246 رنز اسکور کیے۔ اپنا تیسرا ون ڈے کھیلنے والے نائٹ نے 125 رنز بنا کر بیٹ کیری کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ کپتان وسیم اکرم تین وکٹوں کے ساتھ سب سے نمایاں بالر رہے۔ پہلا میچ کھیلنے والے شاہد نذیر، وقار یونس اور ثقلین مشتاق نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم نے 1996 میں انگلینڈ کا دورہ کیا اور ٹیسٹ سیریز میں کامیابی اپنے نام کی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم نے 1996 میں انگلینڈ کا دورہ کیا اور ٹیسٹ سیریز میں کامیابی اپنے نام کی۔

ہدف کے تعاقب میں پاکستان کا آغاز شاندار رہا۔ پہلی وکٹ کی شراکت میں سعید انور اور ڈیبیو کرنے والے شاہد انور نے 93 رنز جوڑے۔ سعید انور 61 اور شاہد کے 37 رنز کے بعد اعجاز احمد نے 59 رنز بنا کر ٹیم کو سہارا دیا۔

اس کے بعد عامر سہیل، شاداب کبیر، آصف مجتبی اور وسیم اکرم کے جلد آؤٹ ہوجانے کی وجہ سے ٹیم مشکلات کا شکار ہوئی۔ ایسے میں وکٹ کیپر راشد لطیف نے 28 گیندوں پر 31 رنز کی جارحانہ اننگز کھیل کر نہ صرف پاکستان کو وائٹ واش سے بچایا بلکہ ایک یادگار جیت میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔

میچ کے بعد راشد لطیف کے تھمبز ڈاؤن اشارے پر کئی لوگوں نے تبصرہ کیا جس میں بعض کا خیال تھا کہ یہ اشارہ میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو تنبیہ تھی۔

پاکستان بمقابلہ انگلینڈ (شارجہ کپ، دسمبر 1997)

سنہ 1997 کے اواخر میں شارجہ میں ڈے نائٹ کرکٹ کا میلہ پہلی بار سجا۔ ٹورنامنٹ میں پاکستان، ویسٹ انڈیز، بھارت اور انگلینڈ کی ٹیمیں مدمقابل تھیں۔

انگلینڈ نے ایونٹ میں ایڈم ہولی اوک کی قیادت میں جو ٹیم بھیجی اس میں زیادہ تر آل راؤنڈرز شامل تھے۔ ڈگی براؤن، ڈین ہیڈلے، میتھیو فلیمنگ اور مارک ایلھم جیسے کرکٹرز پر مشتمل ٹیم کا سامنا جب پاکستان ٹیم کے پسندیدہ گراؤنڈ پر گرین شرٹس سے ہوا تو سب کو لگا کہ میچ پاکستان ہی جیتے گا۔

ایک نہایت ہی آسان میچ کو کپتان وسیم اکرم نے اس وقت مشکل بنادیا جب ٹیم جیت کے قریب تھی۔ 216 رنز کے تعاقب میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے چار وکٹ کے نقصان پر 99 رنز بنا لیے تھے۔ ایسے میں ان فارم بیٹسمین اظہر محمود کی جگہ کپتان نے پہلے ناتجربہ کار اختر سرفراز کو بھیجا۔

انگلینڈ نے پاکستان کو شکست دی تھی۔
انگلینڈ نے پاکستان کو شکست دی تھی۔

اس کے بعد منظور اختر بیٹنگ کے لیے آئے۔ دونوں نوجوانوں نے 20 اور 44 رنز بناکر ٹیم کو سہارا تو دیا لیکن کافی گیندیں ضائع کردیں۔ ان کی جگہ اظہر محمود کو بھیج دیا جاتا تو بہتر ہوتا کیونکہ کچھ ماہ قبل ہی انہوں نے جنوبی افریقہ کی ٹیم کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ میں تین سنچریاں اسکور کی تھیں جس میں سینچری آن ڈیبیو بھی شامل تھی۔

ان دونوں نوجوان کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے بعد وکٹ کیپر معین خان اور کپتان وسیم اکرم نے نہایت سلو بیٹنگ کی اور میچ کو پاکستان کی گرفت سے دور کر دیا۔

معین خان نے 19 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 10 جب کہ وسیم اکرم نے اتنی ہی گیندیں کھیل کر صرف چار رنز اسکور کیے۔ اظہر محمود نے آخری اوورز میں نو گیندوں پر 12 رنز بنا کر ٹیم کو میچ میں واپس لانے کی کوشش تو کی، لیکن پوری ٹیم 49ویں اوور میں 207 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی۔

انگلینڈ نے یہ میچ باآسانی آٹھ رنز سے جیت لیا۔ 19 گیندوں پر چار رنز بنانے پر وسیم اکرم کے فینز نے اُنہیں آج تک معاف نہیں کیا۔

پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا (ورلڈ کپ 1999، فائنل)

پاکستان کرکٹ ٹیم نے 90 کی دہائی کا پہلا ورلڈ کپ جیت کر سب کو حیران کر دیا تھا لیکن گرین شرٹس اس صدی کا اختتام کامیابی سے نہ کر سکے۔

میگا ایونٹ کے دوسرے راؤنڈ میں پے درپے اپ سیٹ شکستوں کے بعد جب سیمی فائنل میں پاکستان نے شاندار کارکردگی دکھائی تو سب لوگ بھول گئے کہ یہی ٹیم بنگلہ دیش اور بھارت سے شکست کھا چکی ہے۔

فائنل میں شرمناک شکست کے بعد شائقین کرکٹ نے تینوں میچز پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں اور آج بھی 1999 کے ورلڈ کپ میں جن میچوں میں پاکستان کو شکست ہوئی ان پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔

آسٹریلیا نے 1999 کے ورلڈکپ کے فائنل میں پاکستان کو باآسانی آٹھ وکٹوں سے شکست دی تھی۔
آسٹریلیا نے 1999 کے ورلڈکپ کے فائنل میں پاکستان کو باآسانی آٹھ وکٹوں سے شکست دی تھی۔

فائنل میچ کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا جس میں کپتان کا ٹاس جیت کر اوور کاسٹ کنڈیشنز میں پہلے بیٹنگ کرنا۔ ان فارم یوسف یوحنا کو نہ کھلانا، میچ کے دوران سعید انور کا بیٹ کی گرپ بدلنا اور اس کے چند لمحوں بعد آؤٹ ہوجانا، قابل ذکر ہیں۔

اسی ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا کے خلاف میچ میں یوسف یوحنا نے صرف 16 گیندوں پر 29 رنز اسکور کیے تھے اور اسکاٹ لینڈ کے خلاف 81 رنز کی ناقابل شکست اننگز بھی کھیل چکے تھے۔ انہیں فائنل میں نہ کھلانا زیادتی تھی خاص طور پر اس وقت جب فائنل الیون میں موجود بلے بازوں نے آہستہ بیٹنگ کی۔

اعجاز احمد نے 46 گیندوں پر 22 رنز اسکور کیے تھے۔ انضمام الحق نے 33 گیندوں پر 15 رنز بنائے جس کے بعد انہیں امپائر ڈیوڈ شیپرڈ نے غلط آؤٹ دیا۔ نوجوان آل راؤنڈر عبدالرزاق جنہیں کپتان نے نمبر تین پر بھیجا تھا 51 گیندوں پر صرف 17 رنز اسکور کر سکے۔

پوری پاکستانی ٹیم کا صرف 132 پر آؤٹ ہونا اور پھر مخالف ٹیم کا 21ویں اوور میں دو وکٹ کے نقصان ہر ٹارگٹ حاصل کرلینا، اس میچ کو نوے کی دہائی کا سب سے مشکوک میچ بناتا ہے۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG