کرونا وائرس کے باعث پاکستان ميں جاری لاک ڈاؤن نے جہاں ديگر شعبہ ہائے زندگی کو جکڑ کر رکھ ديا ہے وہیں صوبہ خيبر پختونخوا ميں فن و ثقافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے فن کار ان دنوں شديد کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہيں۔
شادی بياہ اور ديگر تقريبات سميت ہر قسم کی سرگرميوں پر پابندی کے باعث فن کاروں کے گھروں ميں تنگ دستی نے ڈيرے ڈال لیے ہيں۔
فياض خان کا تعلق صوبہ خيبر پختونخوا کی خوبصورت وادی سوات سے ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے بعد خوف کی وجہ سے موسیقی کی محفلیں نہیں ہو رہیں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ اکثر لوگ موسيقی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ديگر اضلاع سے اس وادی کا رُخ کرتے تھے ليکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب وہ بھی نہيں آسکتے اور نہ ہم کہيں جا سکتے ہيں۔
اُن کے بقول، "اگر کوئی موسیقی کی محفل کا شوق رکھنا چاہے تو بھی پوليس کے خوف کی وجہ سے اس کا انتظام نہيں کر سکتا۔ ايسے حالات ميں اس جگہ کو پوليس کی جانب سے سيل کیے جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔"
سوات ميں فنونِ لطيفہ کو ايک خاص مقام حاصل ہے۔ اس دلکش وادی نے فنِ موسيقی سے جڑے کئی نام پيدا کیے ہيں جس ميں نازيہ اقبال، غزالہ جاويد، مينا اور شبنم قابلِ ذکر ہيں۔
يہ پہلی مرتبہ نہيں کہ سوات ميں فنون لطيفہ سے تعلق رکھنے والے افراد پريشانی کا شکار ہوئے ہيں۔ 2007 سے 2009 تک جب مالاکنڈ ڈويژن ميں دہشت گردی عروج پر تھی اور سرِ شام لوگ گھروں ميں بند ہو کر رہ جاتے تھے تو سوات کے'گرين چوک' المعروف خونی چوک ميں اکثر و بیشتر لاشيں ملتی تھيں۔
ايسی ہی ايک صبح لوگوں نے مشہور پشتو گلوکارہ شبنم کی لاش کو بھی گرین چوک پر لٹکتے ہوئے ديکھا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے گھر سے گھسيٹ کر گرين چوک لايا گيا اور بہت بے دردی سے قتل کيا گيا تھا۔
محلہ بنڑ سوات ميں ثقافتی سر گرميوں کے لحاظ سے مشہور ہے۔ يہی محلہ اس خونی چوک سے صرف 100 ميٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
سوات کے رہنے والے فن کاروں کے مطابق جب بھی وہ اس چوک سے گزرتے ہيں تو ان کے ذہنوں ميں وہ دلخراش واقعات پھر سے تازہ ہو جاتے ہيں۔
اُن کے بقول، "ہم نے اس وقت حوصلہ نہیں ہارا تھا جب طالبان ہمیں نشانہ بنا رہے تھے۔ لیکن موجودہ صورتِ حال میں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو خوشياں پہنچانے کی خاطر ہم نے اتنی پريشانياں جھيليں وہ اس کڑے وقت ميں ہمارا ساتھ دينے سے کترا رہے ہيں۔"
اختر اقبال کا تعلق ضلع سوات کے شہر مينگورہ سے ہے۔ وہ پيشے کے لحاظ سے طبلہ نواز ہيں۔ ان کے مطابق انہوں نے اپنی پوری عمر عوام کو خوشی دینے کے لیے وقف کی ليکن اب جب ان پر بُرا وقت آيا ہے تو کوئی بھی ان کی مدد کرنے کو تيار نہيں ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خيبر پختونخوا ميں بد قسمتی سے فن سے تعلق رکھنے والے افراد کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ وہ تو بنيادی طور پر پشتو زبان اور ادب کی خدمت کر رہے ہيں۔
پچاس سالہ اختر 1982 سے طبلہ بجانے کے فن سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی ميں بہت مشکل حالات ديکھے ہيں۔ 2007-2009 کے درميان جاری دہشت گردی اور اس کے بعد آنے والے سيلاب نے انہيں اتنا متاثر نہيں کيا جتنا کرونا وبا کی وجہ سے وہ متاثر ہوئے ہيں۔
اختر کے بقول، جب دہشت گردی عروج پر تھی۔ ان حالات میں بھی انہیں کہيں نہ کہيں سے راشن مہيا کر ديا جاتا تھا ليکن اب تو تمام لوگ گھروں ميں محسور ہيں۔
اختر اقبال کے مطابق موسيقی کا بينڈ مختلف افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس ميں سے گانے والے کی دہاڑی سب سے زيادہ ہوتی ہے۔ ان کے مطابق موجودہ حالات ميں گانے والوں اور رقص کرنے والوں کے معاشی حالات کم از کم اُن سے بہتر ہيں جب کہ نچلے طبقے کی روزی بس اتنی ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کا چولہا جلا سکے۔
سوات آرٹ اينڈ کلچر ايسوسی ايشن کے ڈائريکٹر عثمان اولس يار کے مطابق کرونا وبا سے معاشرے کے ديگر طبقوں کے مقابلے میں فنونِ لطيفہ سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
عثمان اولس يار کہتے ہیں کہ موسیقاروں اور طبلہ بجانے والوں کا روزگار صرف اسی فن سے جڑا ہے۔ ان کا معاوضہ بھی اتنا نہیں ہوتا کہ وہ بینک بیلنس بنائیں یا مشکل وقت کے لیے ڈھیر ساری رقم جمع کر کے رکھیں تاکہ مشکل وقت میں اسے استعمال کے قابل لایا جائے۔
پاکستان ميں کرونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں ميں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف خيبر پختونخوا ميں 172 افراد اس مہلک بيماری کی وجہ سے ہاتھ دھو بيٹھے ہيں۔
ليکن ہارمونيم نواز محمد فياض چاہتے ہيں کہ صوبے میں موسیقی کی محفلوں پر عائد پابندی جلد از جلد ختم کی جائے۔
فیاض کہتے ہیں کہ انہیں کرونا وبا سے کوئی ڈر نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن ختم کیا جائے تاکہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں اور وہ عيد کے تہوار کے لیے خریداری کر سکیں۔