پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں مقیم عوام خوف و ہراس کا شکار ہیں، جسکی وجہ عید الفطر کے تہوار کی خوشیاں ماند پڑ گئی ہیں۔
کنٹرول لائن کے مختلف سیکٹروں میں جاری گولہ باری اور فائرنگ اور تخریبی کاروائیوں کی وجہ سے ان علاقوں میں بسنے والے لوگ خوف و ہراس اور دہشت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے عید کی روایتی تیاریوں میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
پاکستانی کشمیر میں جنگ بندی لائن کے چکوٹھی سیکٹر کے سرحدی دیہات اوپی کے رہائشی امتیاز کاظمی نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ خوف و ہراس کے عالم میں عید کی تیاریاں روایتی انداز میں نہیں کی جا رہی ہیں۔
امتیاز کاظمی نے بتایا کہ خوف و ہراس کا یہ عالم ہے کہ اندھیرا پڑتے ہی لوگ گھروں سے باہر نہیں آتے۔ فائرنگ اور گولہ باری بھی جاری ہے، کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ شاید اگلی گولی یا گولہ ہمارے اوپر ہی لگے۔
اس دوران پاکستانی کشمیر کی حکومت کی طرف تخریب کاری کے خدشے کے پیش نظر کئی علاقوں میں عید کی نماز کے موقع پر حساس قرار قرار دیا گیا ہے۔
واضع رہے کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کافی کشیدہ رہے ہیں اور دونوں ایٹمی صلاحیت کے حامل ہمسائیوں کی افواج کے درمیان متنازعہ کشمیر کی جنگ بندی لائین لائن پر وقفے وقفے سے گولہ باری اور فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے، جس میں دونوں اطراف شہریوں کی ہلاکت کے علاوہ فوجی بھی مارے جاتے ہیں۔
کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان دولخت کرنے والی تقریبا سات سو پچاس کلو میٹر لمبی جنگ بندی لائن کے دونوں جانب سینکڑوں دیہات اور قصبوں لاکھوں لوگ آباد ہیں جو متحارب افواج کے درمیان ہونے والی گولہ باری اور فائرنگ کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
دونوں ملک فائر بندی کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے رہتے ہیں۔
کشمیر کا علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع سے ہی متنازعہ چلا آرہا ہے، جس پر دونوں ملکوں کے درمیان دو جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پاکستان اسے اپنی شہ رگ اور بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کشمیر کے متنازعہ خطے کے لوگوں کی مستقبل کے بارے میں رائے معلوم کرنے کے لیے 1949 میں رائے شماری کے انعقاد کے لئے ایک قرارداد بھی منظور کرچکا ہے۔