رسائی کے لنکس

قصور میں احتجاج جاری، زینب قتل کا معاملہ قومی اسمبلی میں زیرِ بحث


پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری شہر کی سڑکوں پر گشت کر رہی ہے اور سڑکیں اور بازار بند کرانے کی کوشش کرنے والے بعض مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

قصور میں زینب نامی ایک بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے پر شہر میں گزشتہ دو روز سے جاری پرتشدد مظاہروں کے بعد جمعے کو بھی حالات کشیدہ ہیں۔

جب کہ جمعے کو شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی زینب کے قتل کا معاملے پر بحث ہوئی اور حزب مخالف کی طرف سے خاص طور پر پنجاب کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اُدھر قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے معاملے پر کھل کر بات کرنی ہوئی اور اسے نصاب کا حصہ بنانے کے لیے بھی کام کرنا ہو گا۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس طرح کی کوششوں کو روکا جاتا رہا۔

’’جب تک اس ایوان میں بیٹھے ہوئے ممبران اپنی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہو کر اس مسئلے کے اوپر کام نہیں کریں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔۔۔ نصاب میں جب بھی اس مسئلے کو ’’ریپ‘‘ کے بارے میں آگاہی کے لیے کو شامل کرنے کی بات ہوتی ہے تو کبھی ہم دین کا، تو کبھی ہم مذہب کو اس کے اندر حد بندی بنا کر اس کو شامل نہیں کرتے۔‘‘

پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے جمعے کو صحافیوں سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مشتبہ شخص کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

’’اب جو سراغ ہمیں ملا ہے، اس سے ہمیں مشتبہ شخص کی شناخت میں مدد مل رہی ہے ۔۔۔ ہم مشتبہ شخص کے نزدیک پہنچ گئے ہیں اب کچھ تفصیلات ایسی ہیں جس میں ہمیں نظر آ رہا ہے کہ جو بھی یہ ملزم ہے یہ جلد کیفر کردار تک پہنچے گا ہم اس کو صرف اُمید کے سہارے نہیں چھوڑ رہے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ یہ کوئی عام جرم نہیں تھا۔

’’دکھ کا مداوا صرف اسی صورت میں ہوتا ہے کہ ہم اس ملزم تک پہنچیں اور ملزم تک پہنچنے کے لیے ایک بڑی فوکسڈ انوسٹیگیشن کی ضرورت ہے یہ کوئی نارمل کرائم نہیں ہے۔‘‘

واضح رہے کہ زینب روڈ کوٹ کے علاقے میں گزشتہ اتوار کو ٹیوشن پڑھنے گئی تھی اور پھر واپس نہیں لوٹی، منگل کو اس کی لاش ایک کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔

میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔

قتل کے خلاف بدھ اور جمعرات کو قصور میں صورتِ حال انتہائی کشیدہ رہی اور مظاہروں کا سلسلہ دونوں روز جاری رہا جس کے دوران مشتعل مظاہرین نے کئی املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔

پرتشدد احتجاج کے دوران مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں دو افراد ہلاک بھی ہوئے۔

تاہم جمعے کی صبح شہر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بعض بازار دوبارہ کھلے ہیں لیکن کئی علاقوں میں کشیدگی برقرار ہے۔

پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری شہر کی سڑکوں پر گشت کر رہی ہے اور سڑکیں اور بازار بند کرانے کی کوشش کرنے والے بعض مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے نام پر زینب کے والد نے تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد صوبائی حکومت نے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ابوبکر خدا بخش کی جگہ اب ریجنل پولیس آفیسر ملتان محمد ادریس کو ’جے آئی ٹی‘ کا سربراہ بنا دیا ہے۔

دریں اثنا پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ’ساحل‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے پہلے چھ مہینوں میں ملک کے مختلف حصوں میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 768 واقعات سامنے آئے۔

رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں سے 68 واقعات صرف ضلع قصور میں رپورٹ ہوئے۔

قصور میں پیش آنے والے حالیہ واقعے نے ایک مرتبہ پھر ملک میں بچوں سے جنسی زیادتی کے معاملے کو نہ صرف اجاگر کیا ہے بلکہ بچوں کو اس طرح کے واقعات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی آواز بلند کی جا رہی ہے۔

غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ سرکاری طور پر ایسا کوئی ادارہ یا طریقہ کار نہیں جس کے تحت بچوں سے جنسی زیادتی واقعات کا ریکارڈ جمع کیا جاتا ہو۔

اس سے قبل بھی ضلع قصور کا نام بچوں سے جنسی زیادتی کے کیسز کے حوالے سے سامنے آتا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG