ایک بہت ہی دل کو ہلا دینے والاسی سی ٹی وی کا فوٹیج ہے ۔ ایک دھند لی سی تصویر ہے ۔ سڑک پر ایک مرد ایک چھوٹی سی لڑکی کی انگلی تھامے جا رہا ہے ۔
بچی نے لال رنگ کی فراک پہنی ہوئی ہے ۔ جب ننھے منے بچے کسی کی انگلی پکڑتے ہیں تو عام طور سے انہیں ایسا لگتا ہے کہ ہم سے بڑا یہ شخص ہمارا محافظ ہے ۔ انہیں یہ گمان بھی نہیں گزرتا کہ یہ انسان نہیں، بلکہ ایک درندہ ہے ۔
پھر ایک اور تصویر ہے ۔ کچرے کے ڈھیر میں ایک پھول پڑا ہے ۔ اس میں ہمیں زیادہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ بچی نے لال فراک اور دھاری دار ٹراؤزر پہنا ہے ۔ یہ کوئی بھی بچی ہو سکتی ہے، کسی کی بھی بچی ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا ایک نام بھی ہے ۔ محمد امین انصاری کی لاڈلی بیٹی ’ زینب‘۔
آخر وہ اکیلی گھر سے نکلی کیوں؟ ایک ایسے معاشرے میں جہاں سیکیورٹی ‘محض ایک لفظ ہے، کوئی حقیقت نہیں ؟؟
زینب کے درد میں ڈوبے ہوئے باپ نے بتایا ’ ہم بچوں کو گھر سے اکیلا نہیں جانے دیتے۔ شام کے وقت قرآن شریف پڑھنے کے لئے گئی تھی اپنے کزن کے ساتھ ۔راستے میں تھوڑا سا پیچھے رہ گئی ۔ جب وہاں پہنچ کر وہ نظر نہیں آئی تو اس بچے نے باہر نکل کر دیکھا لیکن وہ نہیں ملی‘۔ اس کے بعد پورا خاندان، پورا محلہ، پورا شہر اسے ڈھونڈتا رہا لیکن زینب نہیں ملی۔
بچی کے والدمحمد امین ملازمت کے لئے سعودی عرب میں مقیم ہیں اور زینب کی امی عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئی ہوئی تھیں ۔’ جب ہم نے سنا تو فوری طور پر واپس آنا چاہتے تھے، لیکن پورے خاندان نے سمجھایا کہ سب سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے۔ ہم رک گئے اور آج یہ خبر سنی ۔ خدا دنیا کے کسی بھی ماں، باپ کو یہ خبر نہ سنائے‘۔
ہمیں کچھ عادت سی تھی، قصور کے ساتھ لفظ ’ سوہنا ‘سننے کی۔ اسی شہر میں اس سے پہلے چھ بچیوں کو ریپ کے بعد مار دیا گیا ۔ کچھ ’ملزم‘ پکڑے بھی گئے لیکن ہمیں ان بچیوں کے علاوہ اور کسی کا انجام نہیں معلوم ۔ امین صاحب کہتے ہیں،’ فوٹیج بھی مل گیا تھا، شہر کے جس علاقہ میں وہ تھی وہ بھی پتا چل گیا تھا ۔ لیکن پولیس نے کو شش ہی نہیں کی ۔ نہ کوئی کارروائی کی ‘۔
پولیس نے فوری طور پر کارروائی تو کی ۔ زینب کے وحشیانہ قتل پر نہیں بلکہ اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کر کے ۔ دو معصوم شہریوں کو مار دیا ۔ میرے دل میں اس سے زیادہ طاقت نہیں ہے، اس بچی کے بارے میں بات کر نے کی ۔ محمد امین انصاری سے ہی سنئے ان کی بچی کا نوحہ۔