سابقہ باغیوں نے لیبیا کے وزیراعظم علی زیدان کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھنے کے بعد رہا کر دیا ہے۔
حکام نے اس بارے میں فوری طور پر کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔
مسٹر زیدان کو جمعرات کو علی الصبح طرابلس کے اس ہوٹل سے اغوا کر لیا تھا جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔
آپریشنز روم آف لیبیا ریولوشنریز نامی گروہ کے سابقہ باغیوں نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے وزیراعظم کو ’’گرفتار‘‘ کر لیا ہے۔ گروپ نے ان کی حکومت پر گزشتہ ہفتے ملک میں امریکی فوجی کارروائی کا حصہ ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
اس کارروائی میں القاعدہ کے ایک سینیئر رکن ابو انس اللیبی کو حراست میں لیا گیا تھا۔
لیبیا کی حکومت امریکی اسپیشل فورسز کی اس کارروائی سے خود کو علیحدہ رکھتی رہی ہے لیکن ملک میں غیر ملکی فوجیوں کے اس اقدام پر شدت پسندوں اور عام شہریوں میں غصہ پایا جاتا ہے۔
امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اس کارروائی کو ’’قانونی اور مناسب‘‘ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ لیبیا کی حکومت کی شکایت بلاجواز ہے اور اللیبی کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
2011ء میں طویل عرصے تک حکمران رہنے والے معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے لیبیا عدم استحکام کا شکار ہے اور تشدد کے واقعات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
قذافی کی فورسز کے خلاف لڑنے والے باغیوں نے ملک میں مختلف عسکری گروہوں کی حوصلہ افزائی کی جو لیبیا کے متعدد حصوں پر قابض ہیں۔
لیبیا میں غیر ملکی سفارتخانوں اور تنصیبات پر بھی حملے دیکھنے میں آئے جن میں گزشتہ ہفتے روس اور اپریل میں فرانس کے سفارتخانوں کو نشانہ بنایا گیا جب کہ گزشتہ سال امریکی قونصل خانے پر بھی ہلاک خیز حملہ کیا گیا تھا۔
حکام نے اس بارے میں فوری طور پر کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔
مسٹر زیدان کو جمعرات کو علی الصبح طرابلس کے اس ہوٹل سے اغوا کر لیا تھا جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔
آپریشنز روم آف لیبیا ریولوشنریز نامی گروہ کے سابقہ باغیوں نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے وزیراعظم کو ’’گرفتار‘‘ کر لیا ہے۔ گروپ نے ان کی حکومت پر گزشتہ ہفتے ملک میں امریکی فوجی کارروائی کا حصہ ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
اس کارروائی میں القاعدہ کے ایک سینیئر رکن ابو انس اللیبی کو حراست میں لیا گیا تھا۔
لیبیا کی حکومت امریکی اسپیشل فورسز کی اس کارروائی سے خود کو علیحدہ رکھتی رہی ہے لیکن ملک میں غیر ملکی فوجیوں کے اس اقدام پر شدت پسندوں اور عام شہریوں میں غصہ پایا جاتا ہے۔
امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اس کارروائی کو ’’قانونی اور مناسب‘‘ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ لیبیا کی حکومت کی شکایت بلاجواز ہے اور اللیبی کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
2011ء میں طویل عرصے تک حکمران رہنے والے معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے لیبیا عدم استحکام کا شکار ہے اور تشدد کے واقعات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
قذافی کی فورسز کے خلاف لڑنے والے باغیوں نے ملک میں مختلف عسکری گروہوں کی حوصلہ افزائی کی جو لیبیا کے متعدد حصوں پر قابض ہیں۔
لیبیا میں غیر ملکی سفارتخانوں اور تنصیبات پر بھی حملے دیکھنے میں آئے جن میں گزشتہ ہفتے روس اور اپریل میں فرانس کے سفارتخانوں کو نشانہ بنایا گیا جب کہ گزشتہ سال امریکی قونصل خانے پر بھی ہلاک خیز حملہ کیا گیا تھا۔