رسائی کے لنکس

ہزاروں ایکڑ اراضی دینے کا فیصلہ کالعدم:'فوج خود کھیتی باڑی کرے گی تو کسان کے لیے اچھا نہیں ہو گا'


پاکستان میں کسانوں اور مزارعین کی تنظیموں نے ہزاروں ایکڑ اراضی فوج کو لیز پر دینے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے مستقبل میں بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

آل پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری فاروق طارق کہتے ہیں کہ کارپوریٹ فارمنگ کا مسئلہ کافی دیر سے چلا آ رہا ہے اور یہ پاکستان میں کسی صورت بھی فائدہ مند نہیں ہے۔

فاروق طارق کا کہنا تھا کہ جب فوج کھیتی باڑی میں آئے گی تو وہ چھوٹے کسانوں کے لیے اچھی بات نہیں ہو گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ مناسب بات نہیں ہے کہ کاروباری معاملات میں فوج آئے اور کام کرے۔

واضح رہے عدالتِ عالیہ لاہور نے بدھ کو پنجاب حکومت کی جانب سے پاکستان کی فوج کو 45 ہزار ایکٹر زرعی زمین 20 سال کے لیے دینے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق نگراں حکومت اور فوج کا یہ کام اُن کےدائرہ اختیار سے باہر ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق آرٹیکل 245 کے مطابق پاکستانی فوج یا اس سے منسلک ادارے کارپوریٹ ایگری فارمنگ منصوبے میں شامل ہونے کا آئینی حق نہیں رکھتے۔ لہذٰا تمام زمین اس کی سابقہ حیثیت کے مطابق حکومت، محکموں اور افراد کو واپس کر دی جائے۔

فاروق طارق کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج تو پہلے سے ہی بہت سی کاروباری سرگرمیوں میں ملوث ہے جو کہ اچھی بات نہیں ہے جس کی وہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے جو زمینیں غیر آباد ہیں یا بنجر ہیں وہ کسانوں کو دی جائیں جس سے وہ نہ صرف آباد ہوں گی بلکہ کسانوں کی معاشی صورتِ حال بھی بہتر ہو گی۔

واضح رہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت نے ایک معاہدے کے تحت رواں ماہ ساہیوال، خوشاب اور بھکر میں ایگری کلچر فارمنگ کے لیے پاکستانی فوج کو 45 ہزار سے زائد ایکڑ اراضی لیز پر دینے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔

حکومتی اقدام کے خلاف ایک نجی تنظیم پبلک انٹرسٹ لا ایسوسی ایشن آف پاکستان نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

درخواست گزار احمد رافع عالم نے عدالت میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ کارپوریٹ فارمنگ اور اس نوعیت کے دیگر کام حکومت کا کام ہے۔ فوج ایسے منصوبوں پر کام نہیں کر سکتی۔

درخواست گزار احمد رافع عالم کہتے ہیں کہ فوج کا کام پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرنا اور ضرورت پڑنے پر سول حکومت کی مدد کرناہے۔ آئین کے تحت فوج کے یہ دو کام ہیں، اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نگراں حکومت کے پاس الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کے تحت کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ سے متعلق اقدام اور پالیسی کے حوالے سے کسی بھی طرح سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا آئینی اور قانونی اختیار نہیں ہے۔

حکومتِ پنجاب کی جانب سے کیس کی پیروی کرنے والے لا اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب افسر سکندر نثار سرویا کے مطابق ابھی تک عدالت کے فیصلے کی کاپی اُنہیں موصول نہیں ہوئی ہے۔ کاپی ملنے کے بعد ہی اِس پر اگلا لائحہ عمل دیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ایڈووکیٹ جنرل کے سامنے رکھا جائے گا۔ تاحال اِس پر کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کی کاپی ابھی صرف ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ جب عدالتی فیصلے کی کاپی اُنہیں موصول ہو گی تو ایڈووکیٹ جنرل صاحب یہ بتائیں گے کہ اِس پر آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا، نظر ثانی اپیل دائر کی جائے گی یا نہیں۔

زمین کب اور کیسے فوج کے حوالے ہوئی؟

زرعی اراضی کو فوج کے حوالے کرنے سے متعلق عدالت میں جمع کرائی گئی دستیاب دستاویز کے مطابق ملٹری لینڈ ڈائریکٹوریٹ نے پنجاب کے چیف سیکریٹری اور بورڈ آف ریونیو کو خطوط لکھے۔

زمین کی حوالگی کے سلسلے میں ملٹری لینڈ ڈائریکٹوریٹ نے محکمہ آبپاشی، محکمہ جنگلات، محکمہ لائیو اسٹاک اور سیکریٹری زراعت کو خطوط لکھے۔ ان خطوط میں ضلع بھکر کی تحصیل کلور کوٹ، منکیرہ میں 42 ہزار سے زائد ایکڑ زمین حوالے کرنے کا کہا گیا۔

اسی طرح خوشاب کی تحصیل قائد آباد میں 1800 ایکڑ اور ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی میں 725 ایکڑ اراضی حوالے کرنے کے لیے بھی خطوط لکھے تھے۔

دستیاب دستاویزات کے مطابق پنجاب حکومت نے 20 فروری کے نوٹی فکیشن اور آٹھ مارچ کے جوائنٹ وینچر معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ منصوبوں کے لیے سرکاری زمینوں کو فوج کے حوالے کیا جائے۔


ذرائع محکمہ بورڈ آف ریونیو کے مطابق مذکورہ معاہدے میں پنجاب حکومت پاکستان کی فوج کو زمین فراہم کرے گی جب کہ فوج اپنے وسائل سے منصوبے کا انتظام اپنے پاس رکھے گی۔

ذرائع کے مطابق اس منصوبہ میں نجی شعبہ سرمایہ کاری کرے گا۔ اِس سلسلے میں نجی شعبہ کھاد اور معاونت فراہم کرے گا۔ ذرائع محکمہ بورڈ آف ریونیو نے مزید بتایا کہ جوائنٹ وینچر پر پنجاب حکومت، فوج، اور کارپوریٹ فارمنگ پر کام کرنے والی نجی فرمز کے درمیان دستخط کیے گئے ہیں۔

دستیاب دستاویزات کے مطابق اراضی کی کاشت سے حاصل ہونے والی 40 فی صد آمدنی حکومت پنجاب کے پاس 20 فی صد زراعت کے شعبے میں تحقیق جب کہ بقیہ آمدن دیگر شراکت داروں کو دی جائے گی۔

زمین کی منتقلی پر عدالتی اسٹے آرڈر پر پاکستانی فوج کا تاحال کوئی مؤْقف سامنے نہیں آیا۔ تاہم اس نوعیت کے معاملات میں فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ ملکی آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے کام کرتی ہے۔

XS
SM
MD
LG