رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں صدارتی راج کے پانچ برس؛ اسمبلی انتخابات کب ہوں گے؟


بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر پر صدارتی راج یا نئی دہلی سے براہِ راست انتظامی کنٹرول کے پانچ برس مکمل ہونے پر سیاسی جماعتوں کا ردِعمل سامنے آیا ہے۔ تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

حزبِ اختلاف نے اس صورتِ حال کو جمہوریت کے بالکل منافی قرار دیتے ہوئے نئی دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت پر جموں و کشمیر کے عوام کے بنیادی جمہوری حق کوسلب کرنے کا الزام لگایا ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور اپوزیشن نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبد اللہ نے کہا کہ "جمہوریت وہاں ختم ہوتی ہے جہاں جموں وکشمیر کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔"

خیال رہے کہ جموں و کشمیر میں آخری اسمبلی انتخابات نو سال پہلے کرائے گئے تھے۔

جموں و کشمیر میں آخری اسمبلی انتخابات 2014 میں ہوئے تھے۔ 19 جون 2018 کو ریاست میں اُس وقت گورنر یا صدارتی راج نافذ کیا گیا تھا جب بی جے پی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی کی قیادت میں شامل مخلوط حکومت سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا اور اسمبلی میں اکثریت کھو دینے کے بعد وزیرِاعلیٰ کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔

اُس وقت کے ریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی طرف سے مل کر نئی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے 2014 کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی اسمبلی کو برخاست کر دیا تھا۔

نئی دہلی نے پانچ اگست 2019 کو جموں وکشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کر دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنا دیا تھا۔ یہ علاقے اب یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹریٹری آف لداخ کہلاتے ہیں۔

عمر عبداللہ کا بھارتی حکومت پر طنز

جموں و کشمیر میں منتخب حکومت کی عدم موجودگی کے پانچ سال مکمل ہونے پر عمر عبد اللہ نے اپنی ایک طنزیہ ٹویٹ میں بھارتی حکومت کے ان دعوؤں پر طنز کیا کہ "'جمہوریت ہماری رگوں میں رچی بسی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بلند و بانگ نعرے بین الاقوامی برادری کو لبھانے اور اشتہاری متلی کو اگلنےکے لیے تو ٹھیک ہیں لیکن ادھر جموں و کشمیر پر وفاق کی براہ راست حکمرانی کے پانچ سال مکمل ہوئے ہیں۔ جہاں جموں کشمیر کی حدود کا آغاز ہوتا ہے، وہاں جمہوریت ختم ہوجاتی ہے۔


نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے کہا "جموں و کشمیر پر جو جمہوریت کی عدم موجودگی میں ایک یتیم بن گیا ہے صدارتی راج کا طویل ترین پانچ سال کا عرصہ مکمل ہوگیا ہے۔

انہوں نے استفسار کیا "آج بھارتی حکومت کہتی ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر آگئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اسے کون سی شے زمامِ اقتدار واپس لوگوں کو سونپنے سے روک رہی ہےَ؟"

'صورتِ حال پہلے کے مقابلے میں زیادہ خراب ہے'

ایک اور بڑی علاقائی جماعت پی ڈی پی نے الزام لگایا ہے کہ اگرچہ جموں و کشمیر نے کبھی اصلی جمہوریت دیکھی نہیں ہے ماضی کے مقابلے میں موجودہ صورتِ حال زیادہ خراب ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیرِ تعلیم سید نعیم اختر اندرابی کا کہنا ہے کہ یہ جمہوریت کی ایک متضاد صورتِ حال ہے بالخصوص ایک ایسے ملک کی پیدا کردہ جو جمہوریت کی ماں ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

نعیم اختر نے نئی دہلی پر ملک کے جمہوری اداروں کو جموں وکشمیر میں جمہوری عمل کو تہہ و بالا اور جگہ کو تنگ کرنے کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا۔

عمر عبداللہ نے الزام لگایا ہے کہ حکمراں بی جے پی جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے سے اس لیے کترارہی ہے کیوں کہ اُن کے بقول اسے ان انتخابات میں شکست سے دو چار ہونے کا خدشہ بلکہ یقین ہے۔

انہوں نے چند دن پہلے سرینگر میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ بھارت کے قومی انتخابی کمیشن کے سربراہ راجیو کمار برملا طور پر اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ جموں و کشمیر میں جہاں تقریبا" نو برس پہلے اسمبلی انتخابات کرائے گئے تھے ایک "خلا" موجود ہے جسے پُر کرنا ضروری ہے۔

ایک اور سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کا کہنا ہے "جموں و کشمیر میں نئی انتخابی حد بندی کا عمل کئی ماہ پہلے مکمل کیا گیا تھا۔ نئی انتخابی فہرستیں بھی تیار ہیں۔

'بی جے پی ہر طرح کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے'

ان الزامات کے ردِ عمل میں بی جے پی کی جموں و کشمیر شاخ کے صدر رویندر رینہ نے کہا کہ ان کی پارٹی انتخابات میں حصہ لینےکے لیے بالکل تیار ہے اور چاہتی ہے کہ قومی انتخابی کمیشن ان کے لیے تاریخوں کا اعلان کردے۔

انہوں نے کہا " بی جے پی ہر طرح کے انتخابات لڑنے کے لیے تیار ہے چاہے یہ لوک سبھا ( بھارتی پارلیمان کا اانِ زیریں) کے انتخابات ہوں یا اسمبلی کے یا بلدیاتی اداروں کے۔ کسی کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں اور وہیں فیصلہ کریں گے۔"

تاہم رویندر رینہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ بی جے پی ان انتخابات میں میدان مار لے گی اور جموں و کشمیر میں اگلی حکومت بنائے گی۔

سرکردہ صحافی اور تجزیہ کار ارون جوشی کہتے ہیں " جمہوریت میں پانچ سال ایک لمبی دراڑ یاخلا ہے بالخصوص جب سیاست میں فقط ایک ہفتہ پورے سکرپٹ اور پیش منظر کو تبدیل کرسکتا ہے۔

ارون جوشی کے مطابق "چین لداخ کی گردن پر سوار ہےاور پاکستان، ترکیہ اور چند دوسرے اسلامی ملکوں کو کشمیر کے بارے میں تشویش ہے ۔ یہ فی الوقت بھارت کے لیے کوئی آرام دہ صورتِ حال نہیں ہے۔"

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG