رسائی کے لنکس

ریڈ کارپٹ استقبال، 21 توپوں کی سلامی؛ 'بھارت کے ہر وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکہ ہی اہم ہوتا ہے'


بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا چار روزہ دورۂ امریکہ شروع ہو گیا ہے۔ دورے میں دفاع اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون ایجنڈے میں سرِفہرست ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات مزید آگے بڑھ رہے ہیں کیوں کہ موجودہ عالمی سیاست کے تناظر میں دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انڈو پیسفک میں چین کی سرگرمیاں بھی دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی قربت کی ایک وجہ ہے۔

بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے، وہ تیز رفتار معیشتوں میں سے ایک ہے اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اسے اہم مقام حاصل ہے۔ اس لیے بائیڈن انتظامیہ کو یہ امید ہے کہ وہ خطے میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بھارت کو اپنا ایک قریبی حلیف بنا سکتی ہے۔

بھارت کے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کا اپنے اداریے میں کہنا ہے کہ چین کی سرگرمیوں کی وجہ سے بیرونی دنیا کے تبدیل شدہ ماحول نے نئی دہلی اور واشنگٹن کو مجبور کیا کہ وہ سیاسی، اقتصادی، تیکنیکی اور دفاعی شعبوں میں اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو اعلیٰ سطح تک لے جائیں۔

لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں ملک چین سے اپنے رشتے بگاڑنا چاہتے ہیں۔ دونوں چین سے معمول کے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ دراصل جو بائیڈن اور نریند رمودی ایشیا میں متوازن سیکیورٹی ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاع اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کئی معاہدے ہو نے والے ہیں۔ بھارت کو امید ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ متعدد معاہدے کرکے اپنی ہارڈ پاور صلاحیت کو اور مضبوط اور خود کو اختراعات کا گڑھ بنا سکتا ہے۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں امریکی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کر سکتی ہیں جس سے بھارت میں روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔

نریندر مودی نے امریکہ روانہ ہونے سے قبل ایک بیان میں کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کثیر جہت ہیں اور متعدد شعبوں میں ان کے درمیان گہری شراکت داری ہے۔

اُنہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان آزاد اور کھلے انڈوپیسفک کے مشترکہ ویژن کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ باہمی اشتراک سے دو طرفہ فورمز اور جی۔20 اور کواڈ جیسے کثیر فریقی فورمز پر تعاون میں اضافہ ہوگا۔

'دیکھنا یہ ہو گا کہ بھارت کو دورے سے کتنا فائدہ ہوتا ہے'

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کہتے ہیں کہ بھارت کا کوئی بھی وزیرِ اعظم امریکہ کا دورہ کرتا ہے تو وہ اہم ہوتا ہے۔ مودی کا ریڈ کارپٹ استقبال، 21 توپوں کی سلامی، اسٹیٹ ڈنر، کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب اور جو بائیڈن کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات کی کوئی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔

ان کے بقول اہمیت اس بات کی ہو گی کہ مودی کے اس دورے سے بھارت کو کتنا فائدہ ہوگا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ بھارت امریکہ میں اپنے اقتصادی ایجنڈے کو آگے بڑھانے، اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے اور دو طرفہ تجارت کو متوازن بنانے میں کتنا کامیاب ہوتا ہے۔

ان کے مطابق یہ تشہیر بے بنیاد ہے کہ امریکہ وزیرِ اعظم نریند رمودی کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ کوئی بھی وزیرِ اعظم ہوتا اور آج خطے کے جیو پولیٹیکل ماحول میں امریکہ کا دورہ کرتا تو اسے بھی یہی اہمیت دی جاتی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دورے کو بھی امریکہ نے ایسی ہی اہمیت دی تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ دراصل دونوں ملکوں میں کیا معاہدے ہوتے ہیں اور دونوں کو اس سے کیا ملتا ہے۔ امریکہ بھارت میں اپنی آرمز انڈسٹری کو آگے بڑھانے کی جو خواہش رکھتا ہے اس میں کتنی پیش رفت ہوتی ہے۔

دوسرے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس دورے سے بھارت کو یہ امید ہے کہ اسے ان اہم امریکی ٹیکنالوجیز تک رسائی حاصل ہو جائے گی جو واشنگٹن شاذ و نادر ہی غیر اتحادیوں کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو دونوں کے باہمی تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔

کیا بھارت کی اُمیدیں پوری ہو پائیں گی؟

بھارت امریکہ رشتوں پر نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار مینک چھایا کے خیال میں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے بہت امیدیں ہیں۔ لیکن دونوں کی اصل توجہ ٹیکنالوجی کے تبادلے پر ہے۔ امریکی ٹیکنالوجیز بھارت کی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ اس بارے میں بھارت کی امیدیں شاید پوری ہو جائیں۔

ایک یو ٹیوب نیوز چینل پر مباحثے میں انہوں نے کہا کہ کرونا کی وبا کے دوران سپلائی چین بہت زیادہ متاثر ہوگئی۔ دونوں ملک یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی صورتِ حال میں سپلائی چین متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ ایک اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کی بڑی کمپنی ’جنرل الیکٹرک‘بھارت میں ملٹری انجن بنانا چاہتی ہے، اس پر بھی کافی گفتگو ہونے کی امید ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے بیجنگ دورے اور صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی نظر اگر ایک طرف بھارت پر ہے تو دوسری طرف چین پر بھی ہے۔

خیال رہے کہ اینٹنی بلنکن نے 19 جون کو بیجنگ کا دورہ کیا اور چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کیا ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ 19 جون کو ہی ویت نام کے وزیر دفاع جنرل فان وین گیانگ نے نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کی۔

اس موقع پر وزارتِ دفاع کے سینئر اہلکار بھی موجود تھے۔ فریقین نے باہمی دفاعی تعلقات کو مزید آگے بڑھانے پر غور کیا اور جنوبی بحیرۂ چین کی صورت حال پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

پشپ رنجن کے مطابق مودی کے دورے سے عین قبل اینٹنی بلنکن کا بیجنگ کا دورہ بہت معنی خیز ہے۔ مودی کے دورے کو بلنکن کے دورے کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بلنکن نے شی جن پنگ کے ساتھ مذاکرات میں کئی ایشوز کے حل کی کوشش کی ہے جن میں توانائی اور تائیوان کا مسئلہ بھی شامل ہے۔

ان کے مطابق 2024 میں امریکہ میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں اور امریکہ کے لیے اقتصادی امور زیادہ اہم ہیں۔ امریکہ کی حکمتِ عملی یہ بھی ہے کہ اقتصادی معاملات کو پٹری پر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انڈو پیسفک میں ٹکراؤ کے بجائے مفاہمت سے کام لیا جائے۔

مودی کے دورے میں گجرات فسادات سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی دستاویزی فلم دکھانے اور انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کی جانب سے مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کے دوران بھارت میں انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھ سکتا ہے۔

مینک چھایا کہتے ہیں کہ اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن زیادہ نہیں ہو گی۔ کیوں کہ بائیڈن انتظامیہ نے یہ طے کر لیا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے معاملے کو ذرا پیچھے رکھا جائے۔ کیوں کہ مختلف وجوہ سے ابھی امریکہ کو بھارت کی ضرورت ہے۔

ان کے خیال میں جب جو بائیڈن صدر منتخب ہوئے تھے تو خیال کیا جا رہا تھا کہ ڈیموکریٹک رہنماؤں کی جانب سے بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا معاملہ اٹھایا جائے گا لیکن امریکی حکومت نے اس سلسلے میں کھلے طور پر کوئی بات نہیں کی۔

دریں اثنا امریکہ کے 75 سینیٹرز اور کانگریسی نمائندوں نے صدر جو بائیڈن کے نام ایک خط میں اپیل کی ہے کہ وہ بھارت امریکہ رشتوں کو مضبوط کرنے کی بات تو کریں لیکن بھارت میں جمہوری قدروں میں گراوٹ اور انسانی حقوق کی صورتِ حال کا معاملہ بھی اٹھائیں۔

انسانی حقوق کی بعض تنظیموں نے بھار ت میں انسانی حقوق کے معاملے پر وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال مارچ میں ایس جے شنکر کے امریکہ کے دورے کے موقع پر اینٹنی بلنکن نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ انہوں نے بھار ت میں انسانی حقوق کے معاملے کو ایس جے شنکر کے سامنے اٹھایا ہے۔ بعد میں ایس جے شنکر نے کہا کہ لوگوں کو بھارت کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے خیالات رکھنے کا حق ہے۔ بھارت کو بھی اس کا حق ہے۔ انہوں نے بھی امریکہ میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر سوال اٹھایا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG