رسائی کے لنکس

برطانوی وزیرِ اعظم کو پارٹی کے اندر تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا


برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بیان دے رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)
برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بیان دے رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)

پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین گراہم بریڈی نے اعلان کیا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کل ارکان کے 15 فی صد کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔

برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے کے خلاف ان کی اپنی جماعت 'کنزرویٹو پارٹی' کے ارکانِ پارلیمان نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کردی ہے جس پر بدھ کو رائے شماری ہوگی۔

وزیرِ اعظم مے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ایسے وقت پیش کی گئی ہے جب وہ یورپی رہنماؤں کو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے بارے میں طے شدہ معاہدے پر نظرِ ثانی پر قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

تھریسا مے کی اپنی ہی جماعت کے کئی رہنما 'بریگزٹ' سے متعلق اس معاہدے کو مسترد کرچکے ہیں جس پر یورپی یونین کی قیادت اور وزیرِاعظم مے نے کئی ماہ کی کوششوں اور مذاکرات کے بعد گزشتہ ماہ اتفاق کیا تھا۔

مذکورہ معاہدہ برطانوی پارلیمان کی منظوری سےمشروط ہے۔ لیکن اپنی ہی پارٹی کے ارکان کی شدید مخالفت کے بعد وزیرِ اعظم مے کو اس معاہدے پر پارلیمان میں پیر کو ہونے والی رائے شماری عین وقت پر ملتوی کرنا پڑی تھی۔

تھریسا مے کے مخالف کنزرویٹو ارکان گزشتہ کئی ہفتوں سے ان کے خلاف پارٹی کے اندر عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن انہیں مطلوبہ ارکان کی اکثریت حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا تھا۔

لیکن بدھ کو حکمران جماعت کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین گراہم بریڈی نے اعلان کیا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کل ارکان کے 15 فی صد کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔

کئی یورپی رہنما برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ سے متعلق کسی نئے معاہدے پر مذاکرات کا امکان مسترد کرچکے ہیں۔
کئی یورپی رہنما برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ سے متعلق کسی نئے معاہدے پر مذاکرات کا امکان مسترد کرچکے ہیں۔

گراہم بریڈی نے بتایا کہ انہیں عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں 48 ارکان کے خطوط مل گئے ہیں جس کے بعد انہوں نے اس بارے میں وزیرِ اعظم کو مطلع کردیا ہے۔

ان کے بقول تحریک پر رائے شماری بدھ کو ہی کرائی جائے گی جس کے نتائج کا اعلان بھی فوراً ہی کردیا جائے گا۔

تھریسا مے کی جماعت کے برطانوی پارلیمان کے ایوانِ عام میں 315 ارکان ہیں جن میں سے اگر 158 نے ان کی قیادت پر عدم اعتماد کیا تو انہیں پارٹی کی قیادت چھوڑنا پڑے گی۔

پارٹی کی قیادت چھوڑنے کے ساتھ ہی انہیں وزارتِ عظمیٰ سے بھی الگ ہونا پڑے گا۔ چوں کہ کنزرویٹو پارٹی برطانوی پارلیمان کے 650 رکنی ایوانِ عام کی سب سے بڑی جماعت ہے لہذا پارٹی کا قائد ہی وزیرِ اعظم بننے کا اہل ہے۔

وزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ایسے وقت پیش کی گئی ہے جب برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی میں چار ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔

برطانیہ 29 مارچ 2019ء کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا اور اگر اس سے قبل دونوں کے درمیان کوئی معاہدہ طے نہ پایا تو اس علیحدگی کے برطانوی معیشت پر بہت برے اثرات پڑسکتے ہیں۔

کنزرویٹو پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ بدھ کو ہی ہوگی جس کے نتائج کا اعلان بھی فوراً ہی کردیا جائے گا۔
کنزرویٹو پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ بدھ کو ہی ہوگی جس کے نتائج کا اعلان بھی فوراً ہی کردیا جائے گا۔

بریگزٹ کے حامی کنزرویٹو ارکان کا موقف ہے کہ وزیرِ اعظم نے یورپی یونین کے ساتھ ایک انتہائی خراب معاہدہ کیا ہے جب کہ بریگزٹ کے مخالفین بھی وزیرِاعظم پر اسی قسم کے الزامات لگا رہے ہیں۔

تھریسا مے کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے یورپی یونین کے ساتھ ہر ممکن حد تک بہتر معاہدہ کیا ہے جس میں برطانیہ کے بیشتر مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔

یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات کی نوعیت برطانوی سیاست خصوصاً کنزرویٹو پارٹی میں ہر دور میں متنازع مسئلہ رہا ہے اور یہی تنازع ماضی میں کنزرویٹو پارٹی کے تین سابق وزرائے اعظم – ڈیوڈ کیمرون، جان میجر اور مارگریٹ تھیچر – کے زوال کا سبب بن چکا ہے۔

وزیرِ اعظم کی قیادت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے اعلان کے بعد ان کی کابینہ کے کئی وزرا نے اس اقدام پر تنقید کی ہے اور وزیرِ اعظم کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر برطانوی وزیرِ اعظم کے خلاف تحریک کامیاب ہوگئی اور انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا تو بریگزٹ کا معاملہ مزید پیچیدہ ہوجائے گا اور عین ممکن ہے کہ برطانیہ کو بغیر معاہدے کے ہی یورپی یونین سے الگ ہونا پڑے۔

کئی یورپی رہنما واضح کرچکے ہیں کہ برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ پر اب مزید کوئی بات نہیں ہوگی اور اسے وہی معاہدہ تسلیم کرنا پڑے گا جس پر تھریسا مے اور یورپی یونین کی قیادت نے اتفاق کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG