پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مالی وسائل کی کمی کے باعث دریاؤں اور جھیلوں کے تحفظ کے منصوبے التواء کا شکار ہیں۔تحفظ ماحولیات ایجنسیEPA))کو حکومت کی عدم توجہی کے وجہ سے فنڈز کی کمی کے علاوہ تحفط ما حول قوانین پر علمدرآمد کے عملے کی کی کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے شہروں اور قصبوں کا سیوریج اور کوڑا کرکٹ دریاوں میں ڈالا جا رہا ہے۔جبکہ زلزلے میں متاثر ہونے والی دو بڑی شاہراہوں کی تعمیر نو اور کشادگی کے دوران چٹانیں، مٹی اور پتھر بھاری مقدار میں دریاؤں میں پھینکے جا رہے ہیں جس سے دریا ؤں میں آلودگی اور آبی حیات کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔
کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کر نے والی کنٹرول لائن(LOC) سے متصل وادی نیلم اور جہلم سے بہہ کر پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے گزرنے والے دو دریاؤں کے کنارے زلزلے میں تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے اور کوڑا کرکٹ سے اٹے ہوئے ہیں۔
پاکستانی کشمیر کی تحفظ ماحول ایجنسی (EPA) کے ڈائریکٹر جنرل افتخار نوید نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں بتایا”ہما رے ہاں ابھی تک تحفظ ماحول کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ یہاں سرکاری محکمو ں کو ماحول کی نزاکت کا احساس نہیں ہے۔عمومی طور پر لوگوں کو ماحول کو محفوظ رکھنے کی اہمیت کا علم نہی ہے۔“ ا نہوں نے بتا یا کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے بنا ئے گئے قوانین پر عملدرآمدکے لئے عملہ نہ ہو نے کے برابر ہے۔
ا فتخار نوید نے کہا کہ دریاؤں اور جھیلو ں کے تحفظ کے لیے کسی ڈونر کی تلاش میں ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کی طرف سے موجودہ مالی سال کے لیے تحفظ ماحول منصوبوں کے گیارہ ملین روپے مہیا کیے جانے تھے جن میں سے اب تک صرف پانچ ملین فراہم کے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماحول کے تحفظ کو موثر بنانے کے لئے ا نوائرنمیٹ پروٹیکشن کونسل تشکیل دی جا رہی ہے جس کے سربراہ وزیر اعظم ہوں گے۔ کونسل کے ذریعے تمام محکموں کو ماحولیاتی تحفظ کے لئے اقدامات اٹھانے اورماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کا پابند بنایا جائے گا۔
مظفرآباد سری نگر سڑک کی تعمیر کر نے والے ایک ٹھیکیدار منور خان سے جب دریافت کیا کہ منصوبے میں ملبے کو مقررکردہ جگہوں پر ٹھکانے لگانے کی پابندی کے باوجود ملبہ دریا میں کیوں پھینک رہے ہیں ۔ تو اس نے کہا کہ اسے کسی نے نہیں کہا کہ ملبہ دریامیں نہ ڈالا جائے۔
ماہر ماحولیات آفتاب عالم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت پاکستانی کشمیر میں ٹھوس فضلات کو ٹھکانے لگانے کے لئے انتظام نہ ہو نے کے باعث ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔2005ء کے زلزلے کے بعد ماس ٹرانزٹ ٹرانسپوٹ کا نظام نہ ہو نے کی وجہ سے ذاتی گاڑیوں کی تعداد میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا ہے ۔جس سے ماحول پر مزید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میگا پراجکٹس کی تعمیر کا عمل ماحول سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
صحت، ماحول ، تعلیم اور ترقی کے لئے کام کر نی والی غیر سرکاری تنظیم ہیڈHEED)) کے سربراہ مبشر نیاز کہتے ہیں کہ جنگلوں، چشموں، آبشاروں ، دریاؤں اور سبزہ زارں کی سرزمین کشمیر میں ماحولیاتی آلودگی کے مسائل حکومت ، افراد، اور غیرسرکاری تنظیمو ں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔