بھارت کے زیرِ انتظام میں کشمیر میں اتوار کو معروف عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی کی دوسری برسی کے موقع پر کی جانے والی عام ہڑتال کی وجہ سے معمولاتِ زندگی معطل ہیں جب کہ حکام نے ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر سمیت کئی علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کردی ہیں۔
برہان وانی کے آبائی قصبے ترال میں اتوار کو لگاتار دوسرے دن بھی کرفیو نافذ ہے۔
جنوبی ضلعے کلگام میں بھی جہاں ہفتے کو بھارتی فوج کی فائرنگ سے ایک نوعمر لڑکی سمیت تین نوجوان ہلاک اور دو شدید زخمی ہوئے تھے، کشیدگی عروج پر ہے۔
تاہم حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وادی میں مجموعی صورتِ حال "پُرامن اور قابو میں ہے۔"
برہان وانی کی برسی پر ہڑتال اور دعائیہ مجالس کے انعقاد کی اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے کی تھی۔
اتحاد نے ہرہان وانی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں کشمیری نوجوانوں کے لیے "ہمت اور طاقت کی علامت" قرار دیا ہے۔
بھارتی کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سوشل میڈیا پر سرگرم 22 سالہ کمانڈر برہان وانی کو بھارتی فوج نے اُن کے دو قریبی ساتھیوں سمیت 8 جولائی 2016ء کو جنوبی کشمیر کے ضلعے اننت ناگ میں ہلاک کردیا تھا۔
وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر اور جموں خطے کی مسلم اکثریتی چناب وادی میں تقریباً چھ ماہ تک جاری رہنے والی بَدامنی کے دوران 80 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
بھارتی حکام بار ہا اعتراف کرچکے ہیں کہ برہان وانی کی ہلاکت سے کشمیر میں 28 برس سے جاری مسلح جدوجہد کو غیر معمولی قوت اور نئی زندگی ملی ہے کیونکہ برہان وانی کے سیکڑوں پرستار جن میں اکثریت نوعمر لڑکوں اور نوجوانوں کی ہے عسکریت پسندوں کے صف میں شامل ہونے لگے ہیں۔
بھارتی حکام کے مطابق اتوار کو برسی کے موقع سرینگر کے سات پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں دفعہ 144 کے تحت حفظِ ماتقدم کے طور پر پابندیاں عائد کی کردی گئی ہیں۔
البتہ مقامی رہائشیوں نے فون پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ان علاقوں میں عملاً سخت کرفیو نافذ ہے اور انہیں اتوار کو مسلسل دوسرے روز بھی گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں ہے۔
تشدد اور مظاہروں کے خدشے کے پیشِ نظر بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف اور نیم فوجی دستوں نے مقامی پولیس کے ساتھ مل کر سرینگر کے حساس حصوں اور ترال کی سڑکوں پر خار دار تار بچھا کر اور بکتر بند گاڑیاں کھڑی کرکے گنجان آبادی والے علاقوں تک رسائی مسدود کردی ہے۔
مظاہروں کے خدشے کے پیشِ نظر بعض مقامات پر سرکاری تنصیبات کی حفاظت فوجی دستوں کے سپرد کردی گئی ہے۔
وادئ کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں جب کہ ریل سروس کو بھی معطل کردیا گیا ہے۔
پولیس نے بیشتر آزادی پسند رہنماؤں اور سرکردہ کارکنوں کو یا تو اُن کے گھروں میں نظر بند کردیا ہے یا انہیں حفاظتی حراست میں لے لیا گیا ہے۔
ترال سے سرینگر پہنچنے والی ایک اطلاع کے مطابق قصبے میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے کرفیو توڑ کر شریف آباد نامی علاقے میں واقع برہان وانی کے گھر کی طرف پیش قدمی کی جسے سکیورٹی دستوں نے ناکام بنادیا۔
ہڑتال کے پیشِ نظر کشمیر کی پہاڑیوں پر واقع ہندوؤں کی متبرک عبادت گاہ امرناتھ گپھا کے لیے یاتریوں کی سرمائی دارالحکومت جموں سے روانگی بھی روک دی گئی ہے۔
حکام کے مطابق چونکہ وادئ کشمیر میں عام ہڑتال کی جارہی ہے اور صورتِ حال کشیدہ ہے اس لیے اتوار کو جموں سے کسی یاتری کو وادئ کشمیر کی طرف سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
البتہ 10 ہزار سے زائد یاتریوں نے جو پہلے ہی سرینگر سے 96 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بال تل اور پہلگام کے بیس کیمپس پہنچ چکے تھے، اتوار کی صبح 3888 میٹر کی بلندی پر واقع امرناتھ گپھا کے لیے پیدل یا گھوڑوں پر سفر شروع کیا۔
دو ماہ تک جاری رہنے والی یہ سالانہ یاترا 28 جون کو غیر معمولی حفاظتی انتظامات میں شروع ہوئی تھی۔
بھارتی حکام کے مطابق سنیچر کی شام تک 83 ہزار سے زائد عقیدت مند گپھا کے اندر برف کے شیو لنگم کے درشن کرچکے ہیں۔