پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان جمعے کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے جارہے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جنرل اسمبلی سے عمران خان کے خطاب کا بنیادی محور کشمیر کا معاملہ ہی ہوگا۔
عمران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گزشتہ ہفتے سے امریکہ کے شہر نیویارک میں ہیں۔ جہاں انہوں نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بعض دیگر عالمی رہنماؤں سے ہونے والی ملاقاتوں کے علاوہ کئی فورم پر گفتگو میں کشمیر کا معاملہ اٹھایا ہے۔
پاکستان اور کشمیر کے بعض حلقوں میں کشمیر کے مسئلے کے تناظر میں عمران خان کے جنرل اسمبلی کے خطاب سے بڑی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں۔ تاہم پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد خان کے بقول عمران خان کے خطاب کا بنیادی محور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہوگا۔
اُن کے بقول پاکستان کے وزیر اعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ کشمیریوں کے سفیر کے طور پر کشمیر کے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھائیں گے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس می بھی ان کی تقریر کا محور کشمیر ہی ہوگا۔
عالمی برداری کی توجہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے خلاف جاری مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف دلائیں گے۔
سابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ چھ روز کے اندر نیویارک میں عمران خان نے کشمیر کا معاملہ اتنا بھر پور طریقے سے اٹھایا ہے کہ اب عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی اس معاملے کو اٹھایا جارہا ہے جو پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔
سابق سیکرٹر ی خارجہ کے بین الاقوامی برادری آگاہ ہے کہ کشمیر ایک متنازع معاملہ ہے جو کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔ لیکن اُن کے بقول جنرل اسمبلی تنازعات کو حل کرانے کا فورم نہیں ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نے امریکہ کے ساتھ کشمیر کا معاملہ اٹھایا اور صدر ٹرمپ نے ثالثی کی پیش کی ہے۔ تاہم معاملات اُسی صورت میں آگے بڑھ سکتے ہیں جب دونوں فریق اس پر اتفاق کریں۔
حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان ماضی کی نسبت کشمیر کا معاملہ بھر پور طریقے سے عالمی فورم پر اٹھا رہا ہے جس کی وجہ سے بھارت کی سفارتی حیثیت متاثر ہوئی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے کوئی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو ہر سطح پر اٹھا رہا ہے لیکن ابھی تک اُن کے بقول کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
مظہر عباس کے مطابق پاکستان کشمیر پر اپنا مقدمہ پیش کر رہا ہے اور بعض ملک اس پر تشویش کا بھی اظہار کر رہے ہیں اور صدر ٹرمپ کی ثالثی کے بیان کے باوجود اب تک معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔
اُن کے بقول اگر کشمیر مین پاکستان انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور وہاں میڈیا بلیک آؤٹ ختم کرانے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے تو یہ یقیناً ایک بڑی پیش رفت ہو گئی۔
گزشتہ ماہ نئی دہلی کی طرف سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت کے زیر اتنظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی طرف عالمی برداری کی توجہ مسلسل مبذول کرا رہا ہے۔ تاہم بھارت اپنے اقدامات کو اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔