رسائی کے لنکس

غیر قانونی تجاوزات گرانے کے عدالتی احکامات پر عمل درآمد ایک کڑا امتحان


ایمپریس مارکیٹ، کراچی
ایمپریس مارکیٹ، کراچی

ان دنوں کراچی کی انتظامیہ کے لیے سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرانا جان جوکھوں کا کھیل بنا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعرات کے روز یہ حکم دیا تھا کہ شہر میں غیر قانونی تجاوزات فوری گرائی جائیں اور وہ عمارتیں بھی گرائی جائیں جن کے لیے حکام نے غلط اجازت نامے جاری کئے تھے۔

جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سندھ حکومت کے افسران آگ سے کھیل رہے ہیں۔ انہیں شرم آنی چاہیے۔ اس شہر کا خیال کسی کو کوئی نہیں‘‘۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ’’یہ بتایا جائے کہ شہر میں بڑی بڑی عمارتیں غیر قانونی طور پر کیسے بن گئیں۔ شہر میں تعمیر شدہ تمام تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے‘‘۔

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ کم سے کم بھی کراچی میں 500 عمارتیں گرانی پڑیں گی۔

صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی سپریم کورٹ کے احکامات کا احترام تو کرتے نظر آتے ہیں مگر وہ اس حکم کو ’’قابل عمل‘‘ قرار نہیں دیتے۔

سعید غنی کا کہنا ہے کہ ’’عدالت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ کسی پلاٹ کو دس پندرہ سال پہلے کمرشلائز کر دیا جائے اور اس کے بعد عدالت کی جانب سے یہ حکم سامنے آئے کہ اسے توڑ کر وہاں رہنے والوں کو بے دخل کیا جائے یا پھر متبادل رہائش فراہم کی جائے تو ایسا ممکن نہیں‘‘۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کی حکومت عدالتی احکامات کو ماننے کی پابند تو ہے مگر وزیر بلدیات کی حیثیت سے وہ استعفیٰ تو دے دیں گے، لیکن وہ یہ کام نہیں کر پائیں گے۔

سعید غنی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ کراچی میں بے تحاشہ غیر قانونی عمارتیں تعمیر کی گئیں اور بہت کچھ ماضی میں غلط ہوا۔ لیکن ان کے خیال میں اس غلطی کا یہ حل نہیں۔ یہ صوبے میں برسراقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی بھی ذمہ دار کی جانب سے سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف پہلا واضح بیان قرار دیا جا رہا ہے۔

ادھر میئر کراچی وسیم اختر کا موقف ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ فیصلہ عوامی مفادات کے تحت کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ شہر میں 525 کچی آبادیاں ریگولرائز ہو سکتی ہیں تو عمارتیں کیوں نہیں؟ میئر خے مطابق یہ لوگوں کی رہائش سے جڑا انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ ہمیں عوامی مسائل حل کرنے کے لئے میئر بنایا گیا اب ان مسائل کے حل کے لئے آخری حد تک جائیں گے۔

دوسری جانب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے رہائشی پلاٹس پر کمرشل عمارتوں پر تعمیرات کے خلاف پیر سے کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پہلے مرحلے میں رفاعی اور رہائشی پلاٹس پر تعمیر شادی ہالز انتظامیہ کو تین روز میں جگہ خالی کرنے کے نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔

شادی ہالز انتظامیہ کی ایسوسی ایشن نے نوٹس جاری کرنے کے خلاف ادارہ ترقیات کراچی کے دفتر کے باہر مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ شادی ہالز کو دیے گئے نوٹس فوری طور پر واپس لیے جائیں۔ شادی ہال مالکان کی ایسوسی ایشن کے رکن رانا رئیس کا کہنا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ادارہ ترقیات کراچی کے افسران سے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں جس کے بعد اتوار کے روز شہر میں شادی ہالز بند رکھے جائیں گے، ان شادی میں 700 سے زائد تقریبات اتوار کے روز ہونا تھیں۔ اس ساری صورتحال میں مسائل کا سامنا شہریوں کو کرنا پڑے گا جنہوں نے شادی ہولز کی بوکنگ مہینوں پہلے کرائی ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ نے کراچی میں فوجی مقاصد کے لیے دی گئی زمین پر تجارتی سرگرمیوں کا بھی سخت نوٹس لیا تھا اور انہیں بھی ختم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG