اِن دنوں سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی کی تاریخی ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں تجاوزات کے خلاف بھرپور آپریشن جاری ہے۔ تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن میں اس تاریخی عمارت کے اطراف کے علاقے میں قائم 1000 سے زائد دکانیں مسمار کی جا چکی ہیں۔ اور یہ آپریشن دس روز سے جاری ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کا یہ آپریشن صرف ایمپریس مارکیٹ تک ہی محدود نہیں، بلکہ پورے علاقے میں زور و شور سے جاری ہے۔ لیکن اس کا محور و مرکز انگریز دور کی بنائی گئی ایمپریس مارکیٹ ہی ہے جس کا حسن بے ہنگم تجاوزت نے گہنا دیا تھا۔
آپریشن کے دوران، یہاں سالوں سے قائم پرندہ مارکیٹ، لنڈا بازار، گوشت مارکیٹ اور سبزی مارکیٹ کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ بیشتر مارکیٹس ایمپریس مارکیٹ میں 40 سال سے زائد عرصے سے قائم تھیں۔
علاقے میں ویسے تو تجاوزات کے خلاف کئی آپریشن کئے گئے ہیں، مگر اکثر ناکامی کا شکار ہوئے۔ جس کی اہم وجہ بلدیاتی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں نچلی سطح پر پائی جانے والی کرپشن بتائی جاتی ہے۔
لیکن، اب کی بار کیا جانے والے آپریشن میں بلدیہ عظمیٰ کراچی نے بھرپور مشینری استعمال کی، پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کی موجودگی میں آپریشن کو انجام تک پہنچایا گیا۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے دکانداروں نے اس آپریشن کو ناانصافی پر مبنی قرار دیا ہے۔ ایمپریس مارکیٹ سے منسلک لنڈا بازار میں 19 سال سے دکان چلانے والے ستار خان کا کہنا ہے کہ انہیں دکان خالی کرانے کا نوٹس تو دیا گیا مگر کیا اس شہر میں یہیں کے دکاندار غیر قانونی دکانیں لگائے بیٹھے ہیں؟ اسی طرح محمد عابد بھی ایمریس مارکیٹ میں قائم سبزی کی دکان پر کام کرتا تھا جو اب نیا روزگار تلاش کرنے میں مصروف ہے۔
دوسری جانب، انتظامیہ کا موقف ہے کہ ایمپریس مارکیٹ ہو یا شہر میں کوئی بھی ایسی جگہ جو قبضہ مافیا کے پاس ہو اسے خالی کرایا جائے گا۔ صدر ایمپریس مارکیٹ میں کئے جانے والے آپریشن کی قیادت کرنے والے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان کا کہنا ہے کہ اس کی زبوں حالی اور بدحالی کو اب بدلا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں یہاں سے تجاوزات کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس عمارت کی جو پرانی رونق اور شان و شوکت تھی اسے بحال کیا جائے گا۔
ڈاکٹر سیف الرحمان نے مزید بتایا کہ یہاں بے ہنگم پارکنگ کے مسائل کو حل کیا جا رہا ہے، بلڈنگ کی ٹوٹ پھوٹ کو دور کرنے کے لئے تزئین و آرائش کی جائے گی اور اسے اس کی اصل حالت میں بحال کیا جائے گا۔
چونکہ یہ شہر کا ثقافتی ورثہ قرار دی گئی عمارت ہے، اس کی بحالی کے لئے ماہر آرکیٹیکٹس پر مشتمل بورڈ کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ جو اس کا معائنہ مکمل کر چکا ہے۔ پلان کے مطابق اس عمارت کے چاروں جانب ایک شاندار باغ بنانے کا پروگرام ہے۔ تاکہ شہر کے اس علاقے میں آنے والوں کو عمارت کے حسن کے ساتھ فرحت و تازگی کا بھی احساس ہو۔
پاکستان کے خلائی اور ماحولیاتی تحقیقیاتی ادارے ’سپارکو‘ کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں اس وقت سب سے زیادہ آلودگی صدر ہی کے علاقے میں ہے جس کو دور کرنے کے لئے یہاں سبزہ اگانا ضروری ہے۔
ایمرپیس مارکیٹ کا تاریخی عمارت کا سنگ بنیاد 1884 میں اس وقت کے بمبئی کے گورنر جیمز فرگوسن نے رکھا تھا۔ اور اس کی تعمیر پانچ سال میں یعنی 1889 میں مکمل ہوئی تھی۔ برطانوی ملکہ وکٹوریہ کے اعزاز میں تعمیر کی گئی اس عمارت کی تعمیر کے لئے ایسی جگہ تلاش کی گئی تھی جسے دور سے بھی دیکھا جا سکے۔ اس عمارت کو انگریز آرکیٹیکٹ، جیمز سٹراچن نے ڈیزائن کیا تھا جس کے لئے پتھر بھارتی ریاست راجھستان کے علاقے جودھ پور سے منگوایا گیا تھا۔