پاکستان کا ساحلی شہر کراچی، ملک کی معاشی شہ رگ کہلاتا ہے۔ یہاں ہونے والی کاروباری سرگرمیاں ملکی معیشت کا پہیہ رواں رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور اس میں سڑک کنارے ’بن کباب‘ بیچنے والے سے لے کر چمکتے دمکتے شاپنگ مالز تک سبھی اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں سے کراچی کو ’بقول کراچی والوں کے‘ کسی کی نظر لگ گئی ہے اور اب امن وامان کی صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی انتظامات کرنے پر مجبور ہیں۔
یوں تو آئے دن کی ہڑتالوں اور بدامنی کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بھی بری طر ح متاثر ہوئی ہیں لیکن ایک کاروبار ایسا بھی ہے جس میں حالات خراب ہونے کے باوجود اضافہ ہوا ہے۔۔ اور وہ ہے بلٹ پروف گاڑیوں کا کاروبار۔۔۔امن کی بدترین صورتحال نے بلٹ پروف گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ کر دیا ہے۔
ٹویوٹا سینٹرل موٹرز کی جانب سے ’ڈریم کار کونٹیسٹ‘ کے موقع پر وائس آف امریکا سے بات چیت میں ڈائریکٹر جنرل ٹویوٹا سینٹرل موٹرز شہزاد گوڈل کا کہنا تھا کہ کمپنی کو مختلف نجی اداروں اور تاجروں کی جانب سے ہر مہینے 20 بلٹ پروف گاڑیوں کے آرڈرز مل رہے ہیں جو غیر معمولی بات ہے۔
شہزاد نے انکشاف کیا کہ کراچی میں گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانے کی اس وقت چار فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔ ایک گاڑی کو بلٹ پروف بنانے پر 30 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور ان گاڑیاں پر کلاشنکوف کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔
بتایا جاتا ہے کہ کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بلٹ پروف گاڑیوں کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتی ہوئی اس مانگ کے سبب کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی بلٹ پروف گاڑیاں بنانے والی فیکٹریاں قائم ہیں۔ ان فیکٹریوں کو ہر مہینے کم از کم 15 سے 20 گاڑیاں تیارکرنے کے آرڈر ملتے ہیں۔
شہزاد کے مطابق زیادہ تر آرڈز خیبر پختونخوا اور اسلام آباد سے دئے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں بلٹ پروف گاڑیوں کی مانگ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان گاڑیوں کی قیمتوں کے حوالے سے شہزاد گوڈل کا کہنا تھا:’مقامی طور پر تیار کی جانے والی بلٹ پروف گاڑیوں اور امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتوں میں بیس سے تیس فیصد کا فرق ہے۔ ٹویوٹا سینٹرل موٹرز نے بلٹ پروف گاڑیوں کے پرزے حاصل کرنے کے لئے دنیا کی چوٹی کی کمپنیوں سے معاہدے کئے ہیں۔ ‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بلٹ پروف گاڑیوں کی فیکٹریاں لاہور،اسلام آباد اور پشاور میں قائم ہیں کیونکہ بلٹ پروف گاڑی کا وزن پچاس فیصد بڑھ جاتا ہے لہذا اسی حساب سے ان گاڑیوں میں فیول کے استعمال میں بھی پچاس گنا اضافہ ہو تا ہے۔
بلٹ پروف گاڑیوں کی فروخت کے حوالے سے شہزاد گودل نے بتایا کہ رواں سال کیش پر بلٹ پروف گاڑیوں کی خریداری نے کارپوریٹ سیکٹر اور پبلک اداروں کی خریداری کو مات دے دی۔
ان کا کہنا ہے ’حکومت کی طرف سے آٹو موبائل اسکیم کے اعلان کا گاڑیوں کی خریداری پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا کیونکہ لوگ غیر قانونی یا اسمگل کی گئی گاڑیاں خریدنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت خرید ی گئی گاڑی کو دوبارہ بیچنا بہت مشکل ہوتا ہے اور کوئی خریدار یہ نہیں چاہتا کہ اس کی خون پسینے کی کمائی ایسی گاڑی کی صورت میں ضائع ہو جائے جس کے کاغذات نہ ہوں۔‘
گزشتہ کچھ سالوں سے کراچی کو ’بقول کراچی والوں کے‘ کسی کی نظر لگ گئی ہے اور اب امن وامان کی صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی انتظامات کرنے پر مجبور ہیں۔
یوں تو آئے دن کی ہڑتالوں اور بدامنی کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بھی بری طر ح متاثر ہوئی ہیں لیکن ایک کاروبار ایسا بھی ہے جس میں حالات خراب ہونے کے باوجود اضافہ ہوا ہے۔۔ اور وہ ہے بلٹ پروف گاڑیوں کا کاروبار۔۔۔امن کی بدترین صورتحال نے بلٹ پروف گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ کر دیا ہے۔
ٹویوٹا سینٹرل موٹرز کی جانب سے ’ڈریم کار کونٹیسٹ‘ کے موقع پر وائس آف امریکا سے بات چیت میں ڈائریکٹر جنرل ٹویوٹا سینٹرل موٹرز شہزاد گوڈل کا کہنا تھا کہ کمپنی کو مختلف نجی اداروں اور تاجروں کی جانب سے ہر مہینے 20 بلٹ پروف گاڑیوں کے آرڈرز مل رہے ہیں جو غیر معمولی بات ہے۔
شہزاد نے انکشاف کیا کہ کراچی میں گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانے کی اس وقت چار فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔ ایک گاڑی کو بلٹ پروف بنانے پر 30 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور ان گاڑیاں پر کلاشنکوف کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔
بتایا جاتا ہے کہ کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بلٹ پروف گاڑیوں کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتی ہوئی اس مانگ کے سبب کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی بلٹ پروف گاڑیاں بنانے والی فیکٹریاں قائم ہیں۔ ان فیکٹریوں کو ہر مہینے کم از کم 15 سے 20 گاڑیاں تیارکرنے کے آرڈر ملتے ہیں۔
شہزاد کے مطابق زیادہ تر آرڈز خیبر پختونخوا اور اسلام آباد سے دئے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں بلٹ پروف گاڑیوں کی مانگ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان گاڑیوں کی قیمتوں کے حوالے سے شہزاد گوڈل کا کہنا تھا:’مقامی طور پر تیار کی جانے والی بلٹ پروف گاڑیوں اور امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتوں میں بیس سے تیس فیصد کا فرق ہے۔ ٹویوٹا سینٹرل موٹرز نے بلٹ پروف گاڑیوں کے پرزے حاصل کرنے کے لئے دنیا کی چوٹی کی کمپنیوں سے معاہدے کئے ہیں۔ ‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بلٹ پروف گاڑیوں کی فیکٹریاں لاہور،اسلام آباد اور پشاور میں قائم ہیں کیونکہ بلٹ پروف گاڑی کا وزن پچاس فیصد بڑھ جاتا ہے لہذا اسی حساب سے ان گاڑیوں میں فیول کے استعمال میں بھی پچاس گنا اضافہ ہو تا ہے۔
بلٹ پروف گاڑیوں کی فروخت کے حوالے سے شہزاد گودل نے بتایا کہ رواں سال کیش پر بلٹ پروف گاڑیوں کی خریداری نے کارپوریٹ سیکٹر اور پبلک اداروں کی خریداری کو مات دے دی۔
ان کا کہنا ہے ’حکومت کی طرف سے آٹو موبائل اسکیم کے اعلان کا گاڑیوں کی خریداری پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا کیونکہ لوگ غیر قانونی یا اسمگل کی گئی گاڑیاں خریدنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت خرید ی گئی گاڑی کو دوبارہ بیچنا بہت مشکل ہوتا ہے اور کوئی خریدار یہ نہیں چاہتا کہ اس کی خون پسینے کی کمائی ایسی گاڑی کی صورت میں ضائع ہو جائے جس کے کاغذات نہ ہوں۔‘