کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے میں پانچ منزلہ رہائشی عمارت گرنے سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد چھ ہوگئی ہے جبکہ عمارت کے ملبے میں دبے افراد کو نکالنے کے لیے فوج کی انجینئرنگ کور کی مدد طلب کرلی گئی ہے۔
کراچی کے قدیمی علاقے موسیٰ لین میں جمعرات کی صبح بظاہر خستہ حالی کے باعث منہدم ہونے والی عمارت "قصرِ رقیہ" کے ملبے تلے دبے افراد کی تلاش کا کام رات گئے فوج کے انجینئرز نے سنبھال لیا ہے جو مشینری کی مدد سے ریسیکو آپریشن انجام دے رہے ہیں۔
جائے حادثہ پر موجود ڈپٹی کمشنر ضلع جنوبی مصطفی جمال قاضی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا ہے کہ ملبے تلے دبی تین بچیوں نے موبائل فون کے ذریعے اپنے زندہ ہونے کی اطلاع دی ہے۔
جمال قاضی کے بقول بچیوں تک تیکنیکی طریقے سے پہنچنے اور انہیں ملبے سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کے مطابق جائے حادثہ پر امدادی کام انتہائی احتیاط سے انجام دیا جارہا ہے تاکہ ملبے تلے دبے کسی شخص کو کوئی نقصان نہ پہنچ پائے۔
امدادی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ عمارت کے ملبے سے اب تک 15 سے زائد افراد کو زخمی حالت میں نکال کر اسپتال منتقل کیا جاچکا ہے۔ رضاکاروں کے بقول ان میں سے بیشتر افراد عمارت کی پانچویں منزل کے رہائشی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نچلی منزلوں کے رہائشی کئی افراد اب بھی عمارت کے ملبے تلے دبے ہوسکتے ہیں۔
علاقہ مکینوں نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ عمارت میں 8 سے 10 خاندان رہائش پذیر تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملبے تلے دبے افراد کے زندہ نکالے جانے کی امید معدوم ہوتی جارہی ہے تاہم جائے حادثہ پر رضاکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
رضاکاروں کے بقول علاقے کی تنگ گلیوں اور جائے حادثہ پر شہریوں کے اژدہام کے باعث امدادی سرگرمیوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
حادثہ میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت 22 سالہ بلال، اس کی آٹھ سالہ بہن عریشہ، 60 سالہ حوا بھائی اور 25 سالہ عمران کے طور پر ہوئی ہے۔ ملبے سے ایک بچی سمیت دو لاشیں ایسی بھی برآمد ہوئی ہیں جن کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کا اجراء
دریں اثناء کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کے بی سی اے)نے عمارت کے انہدام کے حوالے سے اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ حکام کو پیش کردی ہے۔
کے بی سی اے کی ٹیکنیکل کمیٹی برائے خطرناک عمارات کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حادثہ کا شکار ہونےو الی عمارت میں نکاسی آب کا نظام طویل عرصہ سے خراب تھا۔ رپورٹ کے مطابق سیوریج کے پانی کے مسلسل رسائو سے عمارت کے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا جس کے باعث بلآخر عمارت منہدم ہوگئی۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں منہدم ہونے والی عمارت کی پڑوسی عمارات کو بھی خطرناک قرار دیتے ہوئے انہیں مکینوں سے خالی کرانے کی تجویز دی ہے۔
کمشنر کراچی کی گفتگو
اس سے قبل جائے حادثہ پر امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے کمشنر کراچی کمشنر محمد حسین سید نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ درجنوں افراد عمارت کے ملبے تلے دبے ہوسکتے ہیں۔
کمشنر کے بقول تمام ضروری مشینری متاثرہ علاقے میں پہنچادی گئی ہے لیکن رہائشیوں کے ملبے تلے دبے ہونے کی وجہ سے بھاری مشینری کے استعمال میں احتیاط برتی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حادثے کی وجہ عمارت میں ناقص تعمیراتی سامان کا استعمال اور اس کا غلط ڈیزائن ہے تاہم اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جارہی ہیں ۔
انھوں نے بتایا کہ اس عمارت کے گرنے کے باعث قریب موجود دوسری عمارتوں کے گرنے کا بھی امکان ہے جنھیں خالی کرالیا گیا ہے اور متاثرین کو علاقہ میں ہی موجود ایک کمیونٹی سینٹر میں عارضی طور پر منتقل کردیا گیا ہے۔