سینیٹر کاملا ہیرس کے اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق بطور نائب صدر منتخب ہونے کے ساتھ ہی امریکہ میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے وہ اتنے بڑے عہدے کے لیے منتخب ہونے والی پہلی امریکی خاتون بن گئی ہیں۔
کاملا ہیرس ریاست کیلی فورنیا میں بطور وکیل استغاثہ سنگین جرائم کے ملزمان کا سامنا کرنے اور بطور سینیٹر سپریم کورٹ کے نامزد ججز سے تند و تیز سوالات کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی اُمیدوار جو بائیڈن نے اُنہیں بطور نائب صدر نامزد کیا تھا۔ اُن کا مقابلہ ری پبلکن اُمیدوار اور امریکی نائب صدر مائیک پینس سے تھا۔
55 سالہ کاملا ہیرس کے والد کا تعلق جمیکا سے ہے اور وہ اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر ہیں۔ جب کہ ہیرس کی والدہ بھارت سے امریکہ آئیں اور یہاں کینسر پر تحقیق سے وابستہ رہیں۔
ہیرس جب سات سال کی تھیں تو ان کے والدین کے درمیان علیحدگی ہو گئی، جس کے بعد ہیرس کی والدہ نے انہیں پالا پوسا اور ان کے بقول وہ کئی جگہوں پر رہائش پذیر رہیں۔
ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنے والی ہیرس کی بطور نائب صدر نامزدگی کو سیاسی لحاظ سے اہم قرار دیا گیا تھا۔
جو بائیڈن کا کاملا ہیرس کو نائب صدر کے عہدے کے لیے امیدوار کے طور پر منتخب کرنا امریکی سیاست کا ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا۔
کاملا امریکی تاریخ میں چوتھی ایسی خاتون ہیں جنہیں کسی بڑی سیاسی جماعت نے الیکشن کے لیے نامزد کیا تھا۔ وہ قومی سطح کے اعلی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے والی پہلی سیاہ فام، پہلی ایشیائی امریکی اور پہلی بھارتی نژاد امیدوار تھیں۔
ان سے پہلے الیکشن لڑنے والی ہلری کلنٹن سمیت تین خواتین کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جو بائیڈن جنوری 2021 میں 78 سال کی عمر میں صدارت کا حلف اُٹھائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ صرف ایک ہی مدت کے لیے اس منصب پر فائز رہیں۔ لہذٰا امکان ہے کہ 2024 میں کاملا ہیرس ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی اُمیدوار بھی ہو سکتی ہیں۔
کاملا ہیرس تین نومبر کے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں بھی شامل رہی ہیں۔ تاہم فنڈز کی کمی کے باعث وہ اس مہم سے الگ ہو گئی تھیں۔
بائیڈن پر نسلی تعصب برتنے کا الزام
ڈیموکریٹک پارٹی کے مباحثوں کے دوران کاملا ہیرس کے جو بائیڈن پر نسلی تعصب برتنے کے الزامات کو ان مباحثوں کے اہم واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال جون میں مباحثے کے دوران کاملا ہیرس نے جو بائیڈن پر نسلی تعصب کے الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ 1970 کی دہائی میں بطور نوجوان سینیٹر انہوں نے سفید اور سیاہ فام بچوں کا انضمام روکنے کے لیے الگ اسکول اور بسیں مختص کرنے کی حمایت کی تھی۔
کاملا ہیرس نے جو بائیڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس زمانے میں ایک چھوٹی بچی بھی اسکول بس میں سفر کرتی تھی جس کا نام کاملا ہیرس تھا۔
کاملا ہیرس کے الزامات کے جواب میں جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ شہری حقوق کے علمبردار رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی نسل پرستی کے حق میں بات نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے اسکول بسوں کی کبھی مخالفت کی ہے۔ یہ مقامی کونسل کا فیصلہ ہوتا ہے۔
لیکن ان تلخیوں کے باوجود جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کے تعلقات میں بتدریج بہتری آتی رہی۔
جب کاملا ہیرس ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کی دوڑ سے باہر ہوئیں تو اگلے ہی روز جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ کاملا ہیرس کو نائب صدر کے عہدے کے لیے امیدوار نامزد کرنے پر غور کریں گے۔
بطور سینیٹر کاملا کی کارکردگی
سینیٹ میں کمیٹی برائے عدلیہ کے رکن کی حیثیت سے کاملا نے ٹرمپ انتظامیہ سے کئی بار ٹکر لی اور صدر کی جانب سے نامزد ہونے والے دو قدامت پسند ججز نیل گورسیچ اور بریٹ کیونو سے تند و تیز سوالات کیے۔
لیکن اس کے باوجود سینیٹ نے دونوں ججز کو عمر بھر کے لیے سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کی منظوری دی۔
کاملا نے اٹارنی جنرل ولیم بار سے بھی سخت سوالات کیے اور ان سے واشگاف الفاظ میں پوچھا کہ کیا صدر یا وائٹ ہاؤس میں کسی نے انہیں کسی کے خلاف تحقیقات کرنے کے لیے کہا۔ کاملا نے ولیم بار سے کہا کہ وہ ہاں یا نہ میں جواب دیں کہ کیا ایسا ہوا؟
ولیم بار کی جانب سے فوری طور پر جواب نہ دینے پر کاملا ہیرس نے اٹارنی جنرل کے استعفے کا مطالبہ کیا، لیکن ان کی یہ کوشش بے سود رہی۔
کاملا کے سخت سوالات کے ردعمل میں صدر ٹرمپ نے اٹارنی جنرل سے پوچھے گئے سوالات کو لغو اور فضول قرار دیا۔
ٹرمپ جہنوں نے، کاملا کی کیلی فورنیا کے اٹارنی جنرل کے لیے چلائی جانے والی مہم کو چندہ بھی دیا تھا، کاملا کو گھٹیا ترین اور خوفناک شخصیت قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2019 کی پرائمری مہم میں کاملا نے بائیڈن کے خلاف بیانات دیے اور ان کی بے عزتی کی تھی۔
دوسری جانب بطور سینیٹر کاملا بعض معاملات پر قانون سازی کے لیے ری پبلکن سینیٹرز کے ساتھ مل کر بھی کام کرتی رہی ہیں۔ ری پبلکن سینیٹر لنزے گراہم نے کاملا ہیرس کو ذہین خاتون قرار دیا تھا۔
نائب صدر کا اُمیدوار بننے کے بعد کاملا ہیرس نے کہا تھا کہ جو بائیڈن کے ساتھ مل کر انتخابی مہم چلانا اُن کے لیے فخر کی بات ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن امریکی عوام کو متحد کر سکتے ہیں کیوں کہ اُن کی ساری زندگی انہیں کوششوں میں صرف ہوئی ہے۔
امریکہ کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کے مرد امیدواروں کے مقابلے میں خاتون امیدواروں کو کہیں زیادہ جانچ پرکھ سے گزرنا پڑتا ہے۔ مبصرین اور عام لوگ ان کی ظاہری شخصیت، قابلیت، ان کے عزائم، یہاں تک کہ ان کے انداز گفتگو کا بھی بغور جائزہ لیتے ہیں۔
لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند گروپ نے سان فرانسسکو شہر میں وکیل استغاثہ اور کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل کے طور پر کاملا ہیرس کے سخت رویے پر سوالات اٹھائے تھے۔
ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ اگر سان فرانسسکو میں کوئی شخص غیر قانونی اسلحہ اپنے پاس رکھتا ہے اور اس کا کیس ان کے سامنے لایا جاتا ہے تو اس شخص کو جان لینا چاہیے کو وہ جیل جائے گا۔ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ جرائم پر نرمی دکھانا کسی کے ترقی پسند ہونے کی نشانی نہیں ہے۔
مثال کے طور پر کاملا ہیرس نے بطور پراسیکیوٹر، طالب علم کی اسکول سے غیر حاضری کی پاداش میں والدین کو جیل بھیجنے کی دھمکی دی اور اس نوعیت کے دیگر واقعات پر ان کے ناقدین تحفظات کا بھی اظہار کرتے رہتے ہیں۔
لیکن ان تمام تر تنازعات کے باوجود ہیرس اپنے سیاسی سفر میں آگے بڑھتی رہیں ہیں۔ اور کئی سال اٹارنی جنرل رہنے کے بعد 2016 میں وہ امریکی سینیٹ کی رکن بن گئیں اور پھر ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں بھی شامل رہیں اور اب وہ امریکہ کی نائب صدر منتخب ہو گئی ہیں۔