پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ اور ترجمان، میجر جنرل آصف غفور نے اس بات کی تردید کی ہے کہ عالمی عدالت انصاف فیصلے پر عمل درآمد کے لیے پاکستان آرمی ایکٹ میں کوئی ترمیم کی جا رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ ’’کلبھوشن یادو کیس سے متعلق بعض قانونی پہلوؤں پر غور کیا جا رہا ہے۔ لیکن، آرمی ایکٹ میں ترمیم کی افواہیں بے بنیاد ہیں‘‘۔ کمانڈر کلبھوشن سے متعلق حتمی فیصلے کا اعلان اپنے وقت پر ہوگا۔
فوجی ترجمان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستانی اور بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے خبریں سامنے آئی تھیں کہ حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دینے کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے، ترمیم کے بعد کلبھوشن ملٹری عدالت کے طرف سے دی گئی موت کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرسکے گا،
خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے، ترمیم کے بعد کلبھوشن یادیو کو سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ملے گا۔ لیکن، آرمی ایکٹ میں یہ ترمیم صرف عالمی عدالت کے فیصلوں کے معاملے پر لاگو ہو سکے گی۔
آرمی ایکٹ کے مطابق، غیر ملکی جاسوس کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے کے بعد وہ صرف فوجی عدالت میں ہی اپیل کر سکتا ہے اور وہاں سے ناکامی کے بعد آرمی چیف سے اپیل کی جا سکتی ہے۔ ایکٹ کے مطابق، دشمن فوج سے تعلق رکھنے والا جاسوس ملٹری عدالت کے فیصلہ کے خلاف پاکستان کی مقامی عدالتوں میں اپیل دائر نہیں کر سکتا۔
عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ کیوںکہ کلبھوشن یادیو پر جاسوسی کا الزام ہے، لہذا کمانڈر کلبھوشن پاکستان کی تحویل میں ہی رہےگا۔ البتہ، ویانا کنونشن کا اطلاق اس پر ہوگا جس کے تحت اسے قونصلر رسائی دی جا سکے گی۔ پاکستان کلبھوشن یادیو کو پہلے ہی قونصلر رسائی دے چکا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ سزائے موت کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔
کلبھوشن یادیو کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق اپیل کا حق دینے کے لیے ایکٹ میں ترمیم کی بات کی گئی تھی۔ لیکن، اب پاکستان فوج کے ترجمان نے اس کی تردید کر دی ہے۔ تاہم، ترجمان پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مختلف قانونی آپشنز پر غور ہو رہا ہے اور یہ کہ حتمی فیصلے کے حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔
مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016ء کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام کے مطابق، کلبھوشن نے پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا، جس پر اس کے خلاف پاکستان کی فوجی عدالت میں باضابطہ مقدمہ چلایا گیا، جس کے بعد سال2017ء میں فوجی عدالت نےکلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی تھی۔
بعدازاں، سزائے موت کے خلاف کلبھوشن یادیو نے رحم کی اپیل کی بھی تھی۔ بھارت نے کلبھوشن یادیو کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا اور پہلے اس کی موت کی سزا پر حکم امتناع حاصل کیا اور بعدازاں قونصلر رسائی حاصل کی۔
کلبھوشن یادیو کا مقدمہ پاکستانی عدالتی نظام کے تحت سول عدالتوں میں چلانے کی فی الحال گنجائش نہیں۔ لیکن، عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت ’فیئر ٹرائل‘ کا حق دینے اور اپیل کا حق دینے کے لیے کوئی معمول سے ہٹ کر قانونی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے، جس میں آرڈیننس کا اجرا بھی ممکن ہے۔