عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادھو کے متنازع معاملے کا فیصلہ بدھ کو سنا دیا، ماہرین کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہوگا۔
پاکستان کے حساس اداروں نے کلبھوشن کو مارچ 2016 میں بلوچستان سے گرفتار کرنے کا دعوی ٰ کرنے کے بعد ان پر یاست مخالف اور تخریبی کارروائیاں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
کلبھوشن یادھو کو پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے اپریل 2017 میں سزائے موت سنائی جسے عالمی عدالت انصاف نے مئی 2017 میں بھارت کی درخواست پر اس معاملے کا حتمی فیصلہ آنے تک معطل کردیا تھا۔
بھارت کا مؤقف ہے کہ کلبھوشن کو ایران سے اغوا کر کے پاکستان لایا گیا اور پاکستان نے بھارت کی طرف سے متعدد درخواستوں کے باوجود کلبھوشن تک سفارتی رسائی نہیں دی۔ پاکستان بھارت کے اس دعوے کو مسترد کرتا رہا ہے۔
کلبھوشن کا معاملہ 2016 میں اُس وقت منظر عام پر آیا جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے اور اس معاملے کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ جو بھی ہو اسلام آباد اور نئی دہلی کے تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی اور تناؤ برقرار رہے گا۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری سے جب پوچھا گیا کہ عالمی عدالت انصاف کا کلبھوشن سے متعلق فیصلہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر کیا اثرات مرتب کرسکتا ہے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی نوعیت پر ہوگا۔
حسن عسکری کہتے ہیں اگر عالمی عدالت کے فیصلے میں درمیان کا راستہ اختیار کیا گیا تو شاید دونوں ممالک کے تعلقات پر اتنا اثر نا پڑے لیکن اگر فیصلہ ایک فریق کے حق میں آیا تو دوسرا فریق اس پر یقیناً بات کرے گا۔ اگر کوئی ایسا فیصلہ آیا جو دونوں ملکوں کے لیے قابل قبول ہوا تو شاید اس کا کچھ زیادہ اثر نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں خرابی کی وجہ کلبھوشن کا معاملہ بھی رہا ہے کیونکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ کلبھوشن پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے لیکن بھارت اس سے اتفاق نہیں کرتا ہے۔
تجزیہ کار حسن عسکری کے بقول بھارت اس بات سے انکار کرتا ہے کہ کلبھوشن ایک جاسوس ہے اور پاکستان کا مؤقف اس کے برعکس ہے، اس لیے دونوں ملکوں کے درمیان یہ معاملہ باعث اختلاف رہے گا۔
تاہم بھارت کے دفاعی امور کے تجزیہ کار دی پنکر بینر جی کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت کا فیصلہ بین الاقوامی قانون کے مطابق ہوگا اس لیے ان کے بقول اس فیصلے کو پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے سیاسی تناظر میں دیکھنا مناسب نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سیاسی مضمرات ہو سکتے ہیں اور اس کا اثر پاک بھارت تعلقات پر بھی ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول کلبھوشن کے معاملے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر بھی اثر پڑا ہے کیونکہ بھارتی بحریہ کے ایک سابق افسر کو گرفتار کیا گیا اور پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے اُسے سزا سنائی تھی۔ جو بھارت کو قبول نہیں ہے۔
پاکستان کی سلامتی سے متعلق امور کے تجزیہ کار امجد شعیب کا کہنا ہے کہ یہ قانونی معاملہ ہے اور بھارت نے خود عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جب کہ پاکستان نے اپنے مؤقف کا دفاع کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی فیصلہ آئے گا وہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ ہوگا، اگر دونوں ملک اس کو قبول کرتے ہیں تو تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
کلبھوشن کا معاملہ اور پاک ایران تعلقات
بھارت کا مؤقف تھا کہ کلبھوشن یادھو کو مارچ 2016 میں ایران سے اغوا کر کے پاکستان لایا گیا تھا تاہم سلامتی کے امور کے تجزیہ کار امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کا یہ مؤقف درست ہوتا تو ایران ضرور اس پر پاکستان سے احتجاج کرتا لیکن ایران نے اس مؤقف کو قبول نہیں کیا تھا۔
امجد شعیب کے مطابق ایران اور پاکستان کے تعلقات خراب ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔
دوسری طرف تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں اگرچہ بعض معاملات پر اختلافات رہے ہیں تاہم ان کے بقول پاک ایران تعلقات کے تناظر میں کلبھوشن کوئی اتنا بڑا معاملہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کلبھوشن کو 2016 میں گرفتار کیا گیا تھا اس کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کوئی خاص خرابی پیدا نہیں ہوئی، دونوں ممالک کے تعلقات کی جو نوعیت پہلے تھی اب بھی وہی ہے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کلبھوشن جن سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث رہا ہے اس کا تعلق ایران سے نہیں تھا بلکہ وہ بھارت کے لیے تھیں۔
کیا کلبھوشن کا معاملہ باہمی سطح پر طے ہو سکتا تھا ؟
تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ فوری طور حل نہیں ہو سکتا ہے، وسیع سطح پر اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان بات چیت شروع ہونے کے بعد ہی اس معاملے کا حل نکل سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری صورت میں اکثر ملک جاسوسی میں ملوث شہریوں کا تبادلہ کرتے ہیں لیکن کلبھوشن کے معاملے میں اس کا فوری امکان نہیں ہے۔
تجزیہ کار حسن عسکری کے بقول جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑی سطح پر بات چیت کا عمل شروع نہیں ہوتا، اس وقت تک کلبھوشن جیسے معاملات حل نہیں ہو سکتے۔
حسن عسکری کے بقول یہ ممکن نہیں کہ پاکستان یکطرفہ طور پر کلبھوشن کو رہا کر کے بھارت بھیج دے۔
دوسری طرف بھارت کی تجزیہ کار دی پنکر بینر جی نے کہا کہ اگر کلبھوشن کا معاملہ اسلام آباد ور نئی دہلی کے درمیان سفارتی سطح پر حل ہو جاتا تو یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف کے سامنے نہ آتا۔
ان کے بقول اگر دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا ہوتی اور معمول کے سفارتی رابطے قائم رہتے تو شاید یہ معاملہ باہمی سطح پر حل ہو جاتا تاہم انہوں نے کہا کہ کلبھوشن کے معاملے پر بھارت اور پاکستان کا مؤقف واضح ہے، دونوں ملکوں کے مؤقف میں اختلافات کی وجہ سے یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جانا پڑا۔
تجزیہ کار بینر جی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے معاملات کے تناظر میں کلبھوشن کا معاملہ ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے تاہم ان کے بقول پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات نہایت پیچیدہ ہیں، باہمی رابطوں کو فروغ دے کر ہی دوطرفہ تعلقات کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔