رسائی کے لنکس

آرٹیکل 63-اے کی تشریح: 'صدارتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے، فیصلہ نہیں'


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • صدارتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا: چیف جسٹس
  • صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے سوالوں کا جواب دیا جاتا ہے: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ کی رائے پر صدر کی جانب سے عمل نہ ہوں تو ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی: چیف جسٹس

ویب ڈیسک _ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آرٹیکل 63-اے کی تشریح پر نظرِ ثانی اپیلوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ صدارتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے پر صدر کی جانب سے عمل نہ ہو تو ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔

سپریم کورٹ نے منگل کو آرٹیکل 63-اے کی تشریح کے حوالے سے قائم کردہ نئے بینچ نے نظرِ ثانی اپیلوں کی سماعت شروع کر دی ہے۔

نئے بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس نعیم افغان شامل ہیں۔

آرٹیکل 63-اے پر نظرِ ثانی درخواستوں پر سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت روسٹرم پر آئے۔

تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منگل کو سپریم کورٹ میں بینچ کی تشکیل کے حوالے سے ہونے والی کارروائی پر کہا کہ جسٹس منیب اختر سے درخواست کی گئی تھی کہ بینچ میں شامل ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے ایک اور خط لکھا جس میں انہوں نے بینچ میں شامل نہ ہونے کا اپنا پرانا مؤقف دہرایا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو جسٹس منصور علی شاہ کو شامل کرنے کی تجویز دی۔ تاہم جسٹس منصور علی شاہ نے بھی کمیٹی اور بینچ دونوں میں شمولیت سے انکار کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کے بعد ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچا تھا اور دوسرے بینچوں کو ڈسٹرب نہ کرتے ہوئے جسٹس نعیم افغان کو اس کیس کے بینچ میں شامل کیا گیا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ’’اب سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہوتا۔‘‘

اس دوران سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بھی بینچ پر اعتراض کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے علی ظفر سے کہا کہ وہ بیٹھ جائیں ان کو مناسب وقت پر سنا جائے گا۔ بیرسٹر علی ظفر کو پہلے دلائل دینے کا حق نہیں ہے۔ پہلے جس نے نظرِ ثانی درخواست دی ہے اس کو دلائل دینے کا حق ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ روسٹرم پر بار کے منتخب صدر کھڑے ہیں۔ کبھی تو جمہوریت پر بھی چل کر دیکھیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کا آغاز کیا۔ شہزاد شوکت نے کیس کا پس منظر بیان کیا۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور 184/3 کی درخواستیں بھی تھیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس پر رائے اور 184 تین دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں۔ دونوں کو یکجا کر کے فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے۔ صدارتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا دونوں دائرۂ اختیار مختلف نہیں ہیں؟ کیا اُس وقت دونوں معاملات کو یکجا کرنے کی وجوہات پر کوئی عدالتی آرڈر آیا تھا؟

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے قانونی سوالات کا جواب دیا جاتا ہے۔ ریفرنس پر دی گئی رائے پر عمل نہ ہو تو صدر کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی تو نہیں ہوسکتی۔ اس وقت صدر کون تھا؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے استفسار پر شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ اس وقت عارف علوی صدر مملکت تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت حکومت بطور حکومت بھی کیس میں درخواست گزار تھی۔

اس دوران سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے آرٹیکل 63-اے پڑھ کر عدالت کو سنایا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر کی جانب سے کیا قانونی سوالات اٹھائے گئے تھے؟

شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ صدر نے ریفرنس میں چار سوالات اٹھائے تھے اور آرٹیکل 63-اے کے تحت خیانت کے عنصر پر رائے مانگی گئی۔ عدالت نے کہا آرٹیکل 63-اے کو اکیلا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا جب کہ عدالت نے قرار دیا کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لیے اہم ہیں۔

شہزاد شوکت کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے قرار دیا پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کے لیے کینسر ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟

شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ یہ رائے صدر کے سوال کا جواب نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اخلاقیات سے متعلق ریفرنس میں سوال کیا حقیقی تھا؟

شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ عدالت نے قرار دیا منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جاسکتا۔ ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی آواز سے متعلق تھا۔ فیصلے میں آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔

اس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ابھی آپ ایسے دلائل نہ دیں بنیادی حقائق مکمل کریں۔ ریفرنس کے سوال میں انحراف کے لیے کینسر کا لفظ لکھا گیا۔ یہ لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا؟ آپ بتائیں آپ کو اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے؟ آپ کو اعتراض اقلیتی فیصلے پر ہے یا اکثریتی؟

شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر بندہ نا اہل ہوگا۔ فیصلہ تو معاملہ پارٹی سربراہ پر چھوڑ رہا ہے۔ پارٹی سربراہ کی مرضی ہے وہ چاہے تو اسے نا اہل نہ کرے۔ پارٹی سربراہ اگر ڈکلریشن نا اہلی کا بھیجے ہی نہ تو کیا ہو گا؟

اس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نا اہلی کا معاملہ پھر الیکشن کمیشن کو جائے گا وہ رکن کو نوٹس کرے گا۔ الیکشن کمیشن 30 دن میں فیصلہ کرے گا۔ وہ فیصلہ یہاں چیلنج ہوسکتا ہے۔ یہ کیسے تصور کر لیا گیا کہ فیصلہ کہتا ہے رکن فوری نااہل ہوگا؟

بعد ازاں بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا فیصلے میں ہے کہ ووٹ دینے اور نہ گنے جانے پر فوری نا اہلی ہوگی؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نہیں فیصلے میں ایسا نہیں کہا گیا۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیرِ اعظم ہٹایا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کا مطلب ہے آرٹیکل 95 تو پھر غیر فعال ہو گیا۔

اس موقع پر شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ اگر ووٹ نہ گنا جائے تو پھر بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی شرط کیوں ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ووٹنگ کی مشق ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اسے گنا بھی جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت نے فیصلے میں آرٹیکل 95 پر کچھ کہا؟ کسی جماعت کا رکن پارٹی سربراہ کو پسند نہ کریں اور ہٹانا چاہیں تو کیا کیا جائےگا؟ اگر اراکین کا ووٹ تک گنا ہی نہیں جاسکتا تو کیا کیا جائےگا؟

اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان میں انہی دنوں ایک جماعت کے ارکان اپنے ہی وزیرِ اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد لائے تھے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ برطانیہ میں حال ہی میں ایک ہی جماعت نے اپنے وزیرِ اعظم تبدیل کیے۔ اس دوران جماعت نے ہاؤس میں اکثریت بھی نہیں کھوئی۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انحراف کرپٹ پریکٹسز جیسا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کے ضمیر کا معاملہ طے کرنا مشکل ہے۔ کیا فیصلہ آرٹیکل 95 اور 163 کو متاثر نہیں کرتا؟ کیا پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے جیسا نہیں۔

شہزاد شوکت نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی ایک مثال موجود نہیں جس میں انحراف ضمیر کی آواز پر کیا گیا ہو۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ کیا سچ میں ایسا لکھا گیا ہے؟

اس کے بعد شہزادشوکت نے متعلقہ پیراگراف پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو لوگ سیاسی جماعتیں بدلتے رہتے ہیں انہیں ضمیر والا سمجھیں یا نہیں۔

اس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ فیصلے میں رضا ربانی کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ انہوں نے ضمیر کے خلاف جا کر پارٹی کو ووٹ دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ فیصلے سے اختلاف کرنے والا جج بھی باضمیر ہوگا یا نہیں؟ ہم کون ہوتے ہیں کہنے والے کہ تم باضمیر نہیں ہو۔

شہزاد شوکت نے کہا کہ پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی سربراہ الگ الگ ہدایات دیں تو کیا ہو گا۔ ایسے میں تعین کیسے کیا جا سکتا ہے کہ کس کی ہدایات ماننا ضمیر کی آواز ہوگا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل پر جسٹس منصورعلی شاہ کا فیصلہ موجود ہے۔ فیصلے میں وضاحت موجود ہے کہ نا اہلی سے متعلق کون سی شقیں ازخود نافذ ہوتی ہیں اور کون سی نہیں۔ امریکی آئین میں انحراف سے متعلق کیا ہے؟

شہزاد شوکت نے کہا کہ وہاں اراکین ووٹنگ کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ امریکہ میں انحراف کی سزا نہیں ہے جب کہ فیصلے میں تو امریکی سپریم کورٹ کے حوالے دیے گئے ہیں۔

شہزاد شوکت نے استدعا کی کہ فیصلہ واپس لیا جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بتائیں فیصلے میں کیا غلط ہے؟

شہزاد شوکت نے کہا کہ یہ فیصلہ آئین دوبارہ لکھنے جیسا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ صرف یہ نہیں کہتا کہ آپ کا ووٹ گنا نہیں جائے گا۔ فیصلہ کہتا ہے کہ پارٹی کہے تو ووٹ لازمی کرنا ہے۔ پارٹی کے کہنے پر ووٹ نہ کرنے پر رکن کے خلاف کارروائی کا کہا گیا ہے؟ نظرِ ثانی درخواست کب دائر ہوئی؟

شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ 2022 میں نظرِ ثانی درخواست دائر کی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عابد زبیری بھی جب صدر سپریم کورٹ بار بنے تو اپیل واپس نہیں لی؟ سپریم کورٹ بار کے دونوں گروپ نظرِ ثانی درخواست پر قائم رہے۔ چلیں تسلی ہوئی کہ نظرِ ثانی بار کی سیاست کی وجہ سے نہیں تھی۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ نظرِ ثانی خالصتاً آئینی مسئلہ ہی تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ منحرف اراکین کی تا حیات نااہلی کی درخواست آئی تھی۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم نے احتجاجی ریلی کی کال دے رکھی تھی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ رکن کو سیشن میں شرکت سے نہیں روکا جائے گا۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کی جانب سے دورانِ سماعت سندھ ہاؤس پر حملے کا بھی تذکرہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ ہاؤس پر حملہ کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ منحرف اراکین سندھ ہاؤس میں موجود ہیں۔

بعد ازاں وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی نے بھی نظرِ ثانی اپیل کی حمایت کی۔

اس سے قبل پیر نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس منیب اختر کا نام بھی شامل تھے لیکن وہ سماعت کا حصہ نہیں بنے تھے۔

منگل کو سماعت سے قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 'پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس ہوا لیکن اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے شرکت نہیں کی۔

چیف جسٹس نے جسٹس منصور کے بغیر ہی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی جس میں ان کے علاوہ جسٹس امین الدین خان بھی شریک تھے۔

بعدازاں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی میٹنگ کے جارہ کردہ منٹس کے مطابق کمیٹی کا اجلاس منگل کی صبح نو بجے طلب کیا گیا جس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج ‏جسٹس منصور علی شاہ نے شرکت نہیں کی اور رابطہ کرنے پر بینچ میں شمولیت سے بھی انکار کیا۔

کمیٹی اجلاس کے منٹس کے مطابق ‏کمیٹی نے جسٹس منیب اختر کے بینچ کو ختم کرتے ہوئے نیا بینچ تشکیل دے کر بینچ میں جسٹس منیب کی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان کو شامل کر لیا۔

منٹس کے مطابق ‏جسٹس منیب اختر نے بذریعہ خط بینچ میں نہ بیٹھنے کی وجوہات کے ساتھ عدم دستیابی کا اظہار کیا ہے۔ اس کے بعد آرٹیکل ‏63-اے کی نظرِ ثانی اپیلوں کی سماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG