پاکستان کی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ منحرف رُکن کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ تاہم عدالت نے منحرف رُکن کی تاحیات نااہلی کا معاملہ پارلیمان کے سپرد کر دیا ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے تین، دو کے تناسب سے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ منحرف رُکن کو پارٹی پالیسی کا پابند ہونا چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرنا ایک کینسر ہے جس کا علاج ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ کے تین ججز نے رائے دی کہ اگر کوئی رُکن پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو وہ شمار نہیں ہو گا، تاہم دو ججز نے رائے دی کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں کوئی رائے نہیں دینی چاہیے۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ آرٹیکل 63 اے اور سیاسی جماعتوں کے تحفظ سے متعلق آرٹیکل 17 کو الگ کر کے نہیں پڑھا جا سکتا۔ لہذٰا اہم قانون سازی کے دوران اگر کوئی رُکن پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو وہ شمار نہیں ہو گا۔
البتہ عدالت نے منحرف رُکن کی تاحیات نااہلی سے متعلق معاملے پر کہا کہ یہ فیصلہ پارلیمان کو کرنا ہے کہ وہ منحرف رُکن کی نااہلی کی کتنی مدت متعین کرتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے دلائل سننے کے بعد صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کی تھی۔
تحریکِ انصاف کا ردِعمل
سابق وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے سپریم کورٹ کی رائے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کی حکومتیں ختم ہو چکی ہیں۔
فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ اب شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں 169 اراکین جب کہ پنجاب میں حمزہ شہباز کو اب 171 اراکین کی حمایت حاصل ہے، لہذٰا وہ مطلوبہ اراکین کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کو 172 جب کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب کو 186 اراکین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذٰا شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو فوری طور پر اپنے عہدوں سے الگ ہو جانا چاہیے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اب صدرِ مملکت کو چاہیے کہ وہ قومی اسمبلی توڑ دیں اور نئے انتخابات کی طرف بڑھا جائے۔
منگل کی سماعت میں مزید کیا ہوا؟
واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے وقت صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ میں پارٹی سے انحراف کرنے والے ارکان سے متعلق آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کے دوران سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 63 اے میں مزید کچھ شامل کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا پارٹی پالیسی سے انحراف کر کے ووٹ شمار ہو گا؟ ماضی میں ایسے واقعات پر صدرِ مملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا۔ عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظر میں بھی دیکھا جائے۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صدرِ پاکستان کو صدارتی ریفرنس کے لیے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں، آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدرِ پاکستان قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔
منگل کو اس ریفرنس پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں آ چکا ہے اور اپوزیشن کا حکومت میں آنے کے بعد صدارتی ریفرنس میں مؤقف وہی ہوگا جو پہلے تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ریفرنس ناقابلِ سماعت ہے اور اسے جواب کے بغیر واپس بھیج دیا جائے؟
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس سابق وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر فائل ہوا تھا اور سابق حکومت کا مؤقف پیش کرنے کے لیے ان کے وکلا موجود ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدرِ پاکستان کو قانونی ماہرین سے رائے لے کر ریفرنس فائل کرنا چاہیے تھا اور اگر قانونی ماہرین کی رائے مختلف ہوتی تو صدرِ مملکت ریفرنس بھیج سکتے تھے۔
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں، آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے جب کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر فریقین سامنے آئے ہیں، ایک وہ جو پارٹی سے انحراف کرتے ہیں اور دوسرا فریق سیاسی جماعت ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تیکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں، صدارتی ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے اور عدالت ڈیڑھ ماہ سے اس معاملے کو سن رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے اپنی دلیل میں کہا کہ یہ تیکنیکی نہیں آئینی معاملہ ہے، عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں کرتا لیکن سر تسلیمِ خم کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے رکن اور سیاسی جماعت کے حقوق کو بھی دیکھنا ہے، پارٹی سے انحراف کی صورت میں رکن کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار آرٹیکل 63 اے میں موجود ہے۔
اشتر اوصاف نے مزید کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف پر اپیلیں عدالت میں آئیں گی، صدرِ مملکت کے ریفرنس پر رائے دینے سے اپیلوں کی کارروائی پر اثر پڑے گا۔