سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف اثاثہ جات کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے حکومتی وکیل فروغ نسیم سے کہا ہے کہ پہلے جج کی اہلیہ کی جائیداد سے جج کا تعلق ثابت کریں اس کے بعد منی ٹریل پر بات ہو گی۔
جمعے کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنے اہل خانہ کے نام بیرونِ ملک جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہ کر کے ججز کے طے شدہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے حکومتی وکیل فروغ نسیم سے سوال کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں یا نہیں؟ اگر ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ خود کفیل کیسے نہیں ہیں؟
جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ ٹیکس قوانین تو تمام شہریوں کے لیے ہیں۔ حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں۔ لیکن سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹیکس سے متعلق کارروائی نہیں ہوتی۔
دوران سماعت فروغ نسیم نے قرآنی آیت کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب، اس آیت کا شانِ نزول بھی بتا دیں۔ آپ کو پتا ہی نہیں یہ آیت کیوں نازل ہوئی۔
اس موقع پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ ہمیں خطرناک صورتِ حال میں دھکیل رہے ہیں۔ یہ آیت کیس سے متعلقہ نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا پاکستان میں بطور شہری خواتین کے حقوق نہیں؟ کیا خواتین پاکستان میں اپنے طور پر جائیداد نہیں خرید سکتیں؟
اُنہوں نے کہا کہ یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ خواتین سے ٹیکس کا نہیں پوچھا جائے گا؟ یہ جمپ کیسے لے لیا کہ خاوند سپریم کورٹ کا جج ہے تو وہی جائیداد کا بتائے گا؟ کیا خاتون جج کا خاوند پینشن نہیں لے سکتا؟
دورانِ سماعت فروغ نسیم نے کہا کہ قانون میں 'جج' کا لفظ دیا گیا۔ جس سے مراد مرد اور خاتون دونوں جج ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ جج کا احتساب نہیں ہو سکتا۔ جج کا احتساب صرف قانون کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کا بھی احتساب ہو سکتا ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ جج احتساب کو نہیں مانتے۔ آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ڈسپلنری ہوتی ہے، ٹیکس کی نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قرآن پاک میں اثاثوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں اختیارات کو بھی امانت کہا گیا ہے۔ کیا قرآن پاک سے دیے گئے حوالے غیر مسلم ججز پر بھی لاگو ہوں گے؟
جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ معاملہ قانون کے مطابق بہت آسان ہے۔ اگر قانون میں جوابدہی ہے تو وہ جواب دیں گے۔ قانون کے مطابق کارروائی تو شروع کر دی گئی۔ جب آپ ثابت کریں گے کہ یہ جائیدادیں جسٹس قاضی عیسیٰ کی آمدن سے ہیں تو پھر منی ٹریل کا سوال ہو گا۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس میں آپ نے اہلیہ کے مالی معاملات کا تعلق جج صاحب سے ثابت کرنا ہے۔
دورانِ سماعت فروغ نسیم نے ججز کی تعریف کی اور کہا کہ ججز نے بہت اچھے سوال پوچھے ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب، آپ ہمارے سوالات کی تعریف کرتے ہیں لیکن جواب نہیں آتا۔ جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں سائل ہوں صرف گزارش ہی کر سکتا ہوں۔
فروغ نسیم نے بیرون ملک کیسز کے ریفرنس دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں جج کی اہلیہ کے بار کو خط لکھنے پر جج کو جانا پڑا۔ معمولی الزام لگنے پر ججز مستعفی ہو جاتے ہیں یہاں تو کروڑوں کی جائیداد کا معاملہ ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا ریفرنس فائل کرنے سے پہلے کسی نے جج یا ان کی اہلیہ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا تھا؟ جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جج سے جائیدادوں کا پوچھنے کے لیے مناسب فورم جوڈیشل کونسل ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل جائیداد کا ہی تو پوچھ رہی ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر بدنیتی اور اثاثہ جات ریکوری یونٹ پر دلائل دیں گے۔ شواہد اکٹھے کرنے اور ججز کی جاسوسی سے متعلق عدالتی سوالات پر بھی تفصیلی دلائل دوں گا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آئندہ سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے ہوگی۔ کچھ ججز ممکن ہے اسلام آباد میں موجود نہ ہوں۔
کیس کی مزید سماعت پیر کی صبح تک ملتوی کر دی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ہے کیا؟
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرونِ ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جسے گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کر دیا تھا۔
بعد ازاں جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالتِ عظمٰی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ ریفرنس کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس پر عدالت نے فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال اس بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اور بابر ستار نے دلائل مکمل کر لیے ہیں جن میں انہوں نے حکومتی ریفرنس کو بدنیتی قرار دیا ہے۔
اس ریفرنس میں اٹارنی جنرل انور منصور کے مستعفی ہونے کے بعد خالد جاوید کو اٹارنی جنرل بنایا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی فروری میں اس کیس کی سماعت کے دوران وفاق کی نمائندگی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
اس کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی وزارت سے مستعفی ہوکر عدالت میں دلائل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔