بلوچستان کی حکومت کی جانب سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کے اسباب جاننے کے لیے قائم کیا گیا عدالتی کمیشن بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم کر دیا گیا ہے۔
بلوچستان کے محکمۂ داخلہ نے رواں برس یکم جولائی کو عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان اور نذیر احمد لانگو کی سربراہی میں دو رُکنی عدالتی کمیشن قائم کیا تھا۔
ایک ماہ کا عرصہ پورا ہونے پر عدالتی کمیشن نے اتوار کو اپنی رپورٹ جاری کی تھی۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک ماہ کے دوران کوئی بھی گواہی اور بیان قلم بند کرانے کے لیے کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بیانات اور گواہ نہ آنے کی وجہ سے کمیشن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔
سابق سینیٹر عثمان کاکڑ رواں برس 17 جون کو کوئٹہ میں اپنی رہائش گاہ پر مبینہ طور پر سر پر چوٹ لگنے سے بے ہوش ہو گئے تھے۔
بعدازاں انہیں علاج کے لیے کراچی لے جایا گیا جہاں 21 جون کو انتقال کر گئے تھے۔
عثمان کاکڑ کے قریبی رشتے داروں اور پارٹی رہنماؤں نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی موت طبعی نہیں کیوں کہ انہیں کوئی مہلک بیماری لاحق نہیں تھی۔
کراچی کے جناح اسپتال میں عثمان کاکڑ کی پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق لاش پر کسی تشدد یا جسمانی زخم کے نشانات نہیں تھے اور موت برین ہیمرج سے ہوئی۔
عثمان کاکڑ کے اہل خانہ کیا چاہتے ہیں؟
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں شواہد پیش کرنے کے لیے کسی کے پیش نہ ہونے سے متعلق وائس آف امریکہ نے عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے شروع دن ہی سے اس کمیشن کی مخالفت کی تھی۔
انہوں نےدعوی کیا کہ حکومت کے پاس کمیشن بنانے کا اختیار ہی نہیں تھا۔ ایڈوکیٹ جنرل کو اتنا بھی پتا نہیں ہے کہ حکومت نہ بینچ تشکیل دے سکتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس کمیشن کے لیے نام دینے کے اختیارات موجود ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت نے بدنیتی کی بنیاد پر اپنی جانب سے نام دیے جسے ہم ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
خوشحال خان نے کہا کہ ہمارا شروع دن سے مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن صاف اور شفاف انداز میں اس واقعے کی تحقیقات کرے اور تحقیقاتی رپورٹ کو عام کیا جائے۔
انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ عثمان کاکڑ کی موت ایک سانحہ ہے اور اس کی تحقیقات کے لیے اقوامِ متحدہ کمیشن بنائے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے قائد محمود خان اچکزئی نے سات اگست کو کوئٹہ کے سائنس کالج میں عثمان کاکڑ کے چہلم کے موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عثمان خان کاکڑ کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک جمہوری پاکستان کے لیے آواز بلند کرتے تھے۔
بلوچستان حکومت کا مؤقف
وزیرِ داخلہ بلوچستان ضیا اللہ لانگو نے گزشتہ دنوں اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک عدالتی کمیشن بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا ہے۔
انہوں نے خطاب میں کہا کہ ہم نے سابق سینیٹر اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ کی ہلاکت پر لواحقین کے مطالبے پر عدالتی کمیشن قائم کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اخبارات میں اشتہارات د یے گئے تھے کہ اگر کسی کے پاس اس واقعے سے متعلق شواہد موجود ہیں تو وہ کمیشن کے روبرو پیش کیے جائیں۔
ضیا اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ عثمان کاکڑ کے اہلِ خانہ اور جماعت نے اس کمیشن کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔ اس لیے عدالتی کمیشن کو ختم کر دیا گیا۔