بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ لاہور کو مبصرین اور تجزیہ کاروں نے جنوبی ایشیا کے مستقبل کے لئے خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اس سے پاک بھارت کشیدگی میں کمی آئے گی اور خطہ خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا۔
’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں میزبان بہجت جیلانی سے بات چیت کرتے ہوئے واشنگٹن میں معروف اسکالر اور جنوبی ایشیائی امور کے ماہر، مڈل ایسٹ انسٹیٹوٹ کے پروفیسر ڈاکٹر وائین بام نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ لاہور کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے خوشگوار پیش رفت قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی ماہ کی کشیدہ صورتحال میں اعلیٰ ترین سطح پر پاک بھارت رابطے کی بحالی خطے کے مستقبل کے خد و خال کے تعین میں مدد دے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدام کی سخت ضرورت تھی، کیونکہ ماضی میں دو طرفہ بیان بازی نے غلط فہمیوں کو فروغ دیا۔
ڈاکٹر وائین بام کا کہنا تھا کہ مودی کے بارے میں پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ وہ مسلمان مخالف رہنما ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ اس دورے سے یہ تاثر بھی کم ہوگا۔
انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ حالیہ اقدامات لائن آف کنڑول پر کشیدگی کے خاتمے کے ساتھ باہمی تجارت کے فروغ کا ذریعہ بھی بنیں گے جس سے خطے میں خوشحالی آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ اگر بھارت پاکستان کو قائل کرسکے کہ افغانستان میں اس کی موجودگی پاکستان کےخلاف نہیں تو یہ بات خطے کے لئے خوش آئند ہوگی۔
اس سوال پر کہ حالیہ پاک بھارت رابطے پر امریکہ کا ردعمل کیا ہوگا، ڈاکٹر وائین بام کا کہنا تھا کہ امریکہ یقیناً اس عمل کی حوصلہ افزائی کرے گا، کیونکہ خطے میں امن امریکہ کے مفاد میں ہے۔ وہ ہمشہ کہتا رہا ہے کہ دونوں ممالک اپنے معاملات باہمی بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی مدد ملے گی اور اعتماد سازی کے عمل کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب اور تجزبہ کار مسعود خان نے نریندر مودی کے اس دورے کو غیر متوقع لیکن خوشگوار قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک مشکل دور سے گزر رہے تھے۔ تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے، پاکستان اقوام متحدہ میں چلا گیا تھا اور رابطے تیسرے ممالک کے ذریعہ ہو رہے تھے۔ ایسے میں نریندر مودی کا دورہ بہت اہم ہے" ۔
مسعود خان نے کہا کہ اگرچہ یہ ملاقات غیر رسمی تھی تاہم ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ماہ شروع ہونے والے باضابطہ مذاکراتی عمل پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب کرے گی۔
"انھوں نے کہا کہ پاک بھارت مذاکرات کی تاریخ کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ جب کبھی بات چیت شروع ہوتی ہے کہیں نہ کہیں رکاوٹ کھڑی ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تاریخ سے کچھ سیکھا نہ جائے۔ ہمیں توقع رکھنی چاہئے کہ اگلے ماہ جو 10 نکاتی ایجنڈے پر بات چیت کا آغاز ہوگا وہ معنی خیز ہوگا۔"
واشنگٹن میں معروف اسکالر ڈاکٹر زاہد بخاری نے کہا کہ دونوں ممالک میں بعض قوتیں ایسی ضرور ہوں گی جو اس پیش رفت کی مخالفت کریں گی۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ مخالفت ایک دباؤ بھی پیدا کرے گی تاکہ بات چیت بامعنی ہو سکے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں جانب سے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ سول سوسائٹی کا دبائو ہوگا جس سے حقیقی تنازعے کو حل کرنے کی جانب پیش رفت کی جائے۔
ڈاکٹر زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ یہ بی جے پی 'بھارتیہ جنتا پارٹی' جیسی جماعت ہی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دیرینہ تنازعے پر قابل عمل موقف اپنائے اور تعلقات کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
عرب نیوز سے وابستہ معروف صحافی سراج وہاب نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی میں میڈیا کا کردار نہایت اہم ہوگا۔ ان کے بقول بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے میں لگا ہے، جبکہ ایسی صورتحال پاکستان میں نہیں۔ صحافیوں اور میڈیا کو غیر جابندار انداز سے حقیقی مسائل کے حل کی راہ نکالنی ہوگی جب ہی خطے میں صورتحال بہتر ہوگی۔
پروگرام جہاں رنگ سننے اور دیکھنے کے لئے درج ذیل لنک کلک کیجئے: