امریکہ کے محکمہٴ تعلیم نے ’انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی‘، اسلام آباد کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نور فاطمہ کو ’ایجوکیشن ایکسیلنس‘ میں نئے تصورات پیش کرنے پر امریکہ کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈز میں سے ایک، ’مارٹن لوتھر کنگ ایوارڈ‘ سے نوازا ہے۔
یہ ایوارڈ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایک تقریب میں وزیر تعلیم، بیٹسی ڈیووس نے دیے۔ ڈاکٹر فاطمہ کے بقول ’مز بیٹسی نے اس موقع پر بتایا کہ دنیا بھر سے 100 سے زیادہ تجاویز موصول ہوئی تھیں، جن میں سے 20 کو ایوارڈ کے لیے منتخب کرنا بہت مشکل مرحلہ تھا‘‘۔
ڈاکٹر نور یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی واحد جنوبی ایشیائی خاتون ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر نور فاطمہ نے کہا کہ انہیں اس ایوارڈ کے ملنے پر بے حد خوشی ہے۔
انہوں نے اپنی تجاویز کے خدوخال بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس پروجیکٹ پر اوباما انتظامیہ کے دور سے کام کر رہی ہیں، جب وائٹ ہاوس نے سال2015 میں دنیا بھر سے 50 ماہرین تعلیم کو مدعو کیا تھا اور ان سے تجاویز مانگی گئی تھیں کہ دنیا میں موجود تفاوت میں کمی کے لیے مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے اور تہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ کی فضا کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر نور کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی سفارشات میں نئی نسل جس میں پرائمری کے بچوں سے لے کر گریجویشن کرنے والے طالب علم تک شامل ہیں، ان کے اندر رنگ نسل مذہب اور ذات پات سے بالا رویوں کے فروغ کو تعلیم و تربیت کا حصہ بنانے پر توجہ مرکوز رکھی ہے کہ ان کے مطابق آئندہ نسلوں کے معمار آج کے بچے ہی نیا اور بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ ’’اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ذہنوں کو مختلف عصبیتوں سے پراگندہ ہونے سے بچایا جائے۔ بچوں میں سوال کرنے اور سوچنے کی اہلیت پیدا کی جائے نہ کہ انہیں رٹا سسٹم کا اسیر بنا دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف کمیونٹی گروپس جو ہم آہنگی پر کام کر رہے ہیں۔ ان کی دوسرے ملکوں تک رسائی بھی تجویز کا حصہ تھی‘‘۔
واشنگٹن سٹوڈیو میں پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں میزبان اسد حسن کے ساتھ گفتگو میں ڈاکٹر نور فاطمہ نے کہا کہ اگرچہ ان کی سفارشات کا دائرہ پوری دنیا کے لیے ہے، لیکن پاکستان کے موجودہ حالات میں انتہا پسندی کے خاتمے اور مذاہب و عقائد سے متعلق وسعت پیدا کرنے کے لیے اس کا اطلاق پاکستان کے لیے بھی موزوں ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’اگرچہ پاکستان کے اندر تھنک ٹینک اور پالیسی سازوں کے درمیان مغرب اور امریکہ جیسا ربط نہیں ہے مگر پاکستان میں بھی حالات بدل رہے ہیں۔ ریاست اور نظام نئے تصورات کو قبول کرنے اور سننے کے لیے تیار ہے اور بالخصوص نئی نسل بذات خود بہت متوجہ دکھائی دیتی ہے‘‘۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ’’جدید تصورات بالخصوص نصاب میں تبدیلیوں جیسی تجاویز کے خلاف صرف مزاحمت نہں متشدد مزاحمت بھی دیکھی جاتی ہے‘‘۔ اس کے باوجود، ان کے بقول، ’’نئے تصورات پر بات ہونا بذات خود بہت حوصلہ افزا ہے‘‘۔