افغان تجزیہ کار، انیس الرحٰمن نے کہا ہے کہ پاکستان کو چاہئے کہ خطے کی تجارت سے متعلق صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ''باہمی تجارتی رابطوں کو فروغ دے''۔
اُنھوں نے یہ بات ہفتے کے روز 'وائس آف امریکہ' کے پروگرام 'جہاں رنگ' میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ اُن سے پوچھا گیا تھا کہ افغانستان اور ترکمانستان کے درمیان نئے تجارتی راستے کے افتتاح کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تجارتی روابط پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اور یہ کہ اس پس منظر میں پاکستان، افغانستان اور چین کےسہ فریقی اجلاس کے کیا مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔
پروگرام میں تجزیہ کاروں نے کابل میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات کے بارے میں سوالات کے تفصیلی جواب دیتے ہوئے ''پاکستان کے اہم کردار'' کا ذکر کیا۔
انیس الرحمٰن نے، جو افغان ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر نیوز ہیں، کہا کہ آج کی دنیا میں اقتصاد اور تجارت کو اہم خیال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کے حلف اٹھانے کے بعد پہلے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا تھا؛ اور یہ کہ ''اگر ان کی حکومت اس پالیسی پر عمل پیرا ہو جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے''۔
انیس الرحمٰن نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی کابل میں ہونے والی ملاقاتوں کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔
پاکستان سے تجزیہ کار منصور جعفر نے کہا کہ قطر میں طالبان کے دفتر کھلنے اور امریکہ کے بلواسطہ اور براہ راست رابطوں نے امید کی ایک کرن دکھائی ہے اور امریکہ کی طرف سے پاکستان سے طالبان کے ساتھ رابطوں میں مدد کی درخواست سے انداز فکر میں بھی تبدیلی کا پتہ چلتا ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے۔
واشنگٹن سے تجزیہ کار عارف انصار نےزلمے خلیل زاد کی کوششوں کا جائزہ لیتے ہوئے متعلقہ فریقوں میں اعتماد کی بحالی اور افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل مصالحت اور مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنئیے: