امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے خبر دی ہے کہ مالیاتی سروسز فراہم کرنے والی عالمی کمپنی جے پی مورگن چیس نے چین کے سابق وزیرِ اعظم وین جیا باؤ کی صاحبزادی کو پوشیدہ طور پر ملازمت دی۔
جمعرات کو یہ رپورٹ ایسے وقت شائع ہوئی جب امریکی حکومت یہ تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا بینک نے چین کے با اثر عہدیداروں کے بچوں کو اس غرض سے ملازمت تو نہیں دی کہ اس کے ذریعے چین کی سرکاری کمپنیوں کے ساتھ بڑے کاروباری معاہدے کر سکیں۔
ٹائمز کا کہنا ہے کہ جے پی مورگن نے 2006ء سے 2008ء کے درمیان ایک نسبتاً غیر معروف کاروباری کمپنی کو 18 لاکھ ڈالر کی ادائیگیاں کیں۔ یہ کمپنی اس وقت چین کے وزیرِ اعظم کی صاحبزادی وین روچن کی تھی، جنھوں نے اس کے لیے اپنا نام لیلی چینگ ظاہر کر رکھا تھا۔
جے پی مورگن پر قوائد و ضوابط کے خلاف کسی اقدام کا الزام عائد نہیں کیا گیا ہے، لیکن نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں بینک کے اعلٰی عہدیدار لیلی چینگ کی اصل شناخت سے واقف تھے اور اُنھوں نے وین روچن کے وسیع روابط سے فائدہ حاصل کیا۔
جے پی مورگن نے اخباری رپورٹ پر تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی چین اور امریکہ کی حکومتوں نے بھی اس پر ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ یہ رپورٹ خفیہ دستاویزات کے جائزے، چین کے ریکارڈز اور اس سلسلے میں معلومات رکھنے والے افسران سے انٹرویوز کی بنیاد پر شائع کی گئی ہے۔
جمعرات کو یہ رپورٹ ایسے وقت شائع ہوئی جب امریکی حکومت یہ تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا بینک نے چین کے با اثر عہدیداروں کے بچوں کو اس غرض سے ملازمت تو نہیں دی کہ اس کے ذریعے چین کی سرکاری کمپنیوں کے ساتھ بڑے کاروباری معاہدے کر سکیں۔
ٹائمز کا کہنا ہے کہ جے پی مورگن نے 2006ء سے 2008ء کے درمیان ایک نسبتاً غیر معروف کاروباری کمپنی کو 18 لاکھ ڈالر کی ادائیگیاں کیں۔ یہ کمپنی اس وقت چین کے وزیرِ اعظم کی صاحبزادی وین روچن کی تھی، جنھوں نے اس کے لیے اپنا نام لیلی چینگ ظاہر کر رکھا تھا۔
جے پی مورگن پر قوائد و ضوابط کے خلاف کسی اقدام کا الزام عائد نہیں کیا گیا ہے، لیکن نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں بینک کے اعلٰی عہدیدار لیلی چینگ کی اصل شناخت سے واقف تھے اور اُنھوں نے وین روچن کے وسیع روابط سے فائدہ حاصل کیا۔
جے پی مورگن نے اخباری رپورٹ پر تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی چین اور امریکہ کی حکومتوں نے بھی اس پر ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ یہ رپورٹ خفیہ دستاویزات کے جائزے، چین کے ریکارڈز اور اس سلسلے میں معلومات رکھنے والے افسران سے انٹرویوز کی بنیاد پر شائع کی گئی ہے۔