رسائی کے لنکس

جنوبی کوریا: بچے پیدا ہونے کی شرح میں اضافے سے حکومت پُرامید


  • جنوبی کوریا میں شرحِ پیدائش فی خاتون ایک بچے سے بھی کم ہے۔
  • حکومت بچے پیدا کرنے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کے مختلف پروگرامز پر اربوں ڈالر خرچ کرچکی ہے اور رواں برس کے لیے 13 ارب ڈالر سے زائد کی اسکیمز زیرِ غور ہے۔
  • حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کے لوگوں میں شادی سے متعلق مثبت رائے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ویب ڈیسک -- جنوبی کوریا کے لوگوں کو 'خوش خبری' ملی ہے کہ ایک دہائی کے دوران پہلی بار ان کے ملک میں بچوں کے پیدا ہونے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں جہاں آبادی کا بڑھنا ایک مسئلہ ہے وہیں دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں کم ہوتی آبادی کو بھی بحران قرار دیا جاتا ہے۔ جنوبی کوریا بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں کی آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہے۔

بدھ کو جنوبی کوریا کے محکمۂ شماریات نے بتایا کہ گزشتہ برس کوریا میں شرح پیدائش یا فی خاتون بچہ پیدا کرنے کی اوسط 0.75 ہوگئی ہے جو 2023 میں 0.72 تھی۔

یہ شرح ایک بچہ فی عورت سے بھی کم ہے اور جنوبی کوریا کو اپنی آبادی پانچ کروڑ کی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے 2.1 بچے فی خاتون کی شرحِ پیدائش درکار ہے۔

خبر رساں ادارے ' اے ایف پی' کے مطابق عوامی سطح پر 2015 کے بعد پہلی بار شرح پیدائش میں اضافے کی خبر کو لوگ درست سمت میں مثبت قدم قرار دے رہے ہیں۔

ملازمت کرنے والے 34 سالہ جن سانگ پل کا کہنا ہے کہ نو سال بعد ملک میں شرحِ پیدائش بڑھنے کی خبر سے انہیں بے حد خوشی ہوئی ہے۔

اکتالیس سالہ خاتون خانہ پار یے جن کے مطابق ان کے بچے نے حال ہی میں ایلیمینٹری اسکول سے تعلیم مکمل کی ہے اور اس کے ساتھ اسکول میں صرف 100 بچے پڑھتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے بچپن میں ابتدائی تعلیم کے اسکول میں کم از کم پانچ گنا زیادہ بچے ہوا کرتے تھے۔

جنوبی کوریا کی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے بچے پیدا کرنے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی پر اربوں ڈالر کا سرمایہ لگا رہی ہے۔ رواں برس بھی حکومت شرح پیدائش میں اضافے کے لیے 13 ارب ڈالر سے زائد کے مختلف پروگرام متعارف کرانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

شرحِ پیدائش میں بہتری کے ساتھ شادی کے بارے میں بھی جنوبی کوریا کے لوگوں کی رائے بہتری ہوئی ہے۔ 2014 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب 52.5 فی صد کورین شہریوں نے شادی کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے۔

جنوبی کوریا کے وزیرِ خارجہ اور قائم مقام صدر چوئی سانک موک نے شرحِ پیدائش میں اضافے کو 'امید کی کرن' قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معمولی تبدیلی کے لیے بھی حکومت نے بیش بہا سرمایہ خرچ کیا ہے۔

تاہم کوریا میں سبھی نوجوان شرحِ پیدائش میں اضافے کو امید افزا بات نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک شادی، بچے اور لائیو اسٹائل برقرار رکھنا آسان کام نہیں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی پرورش پر آنے والے اخراجات میں اضافہ، جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور اچھی ملازمتوں کے حصول کے لیے تیز ہوتی مسابقت کی دوڑ سمیت گرتی ہوئی شرحِ پیدائش کی کئی دیگر وجوہ بھی ہیں۔

اس خبر میں شامل معلومات اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG